نوکنڈی بلوچستان کی سونا اگلنے والی سرزمین ہے جہاں پر رہنے والوں کودن میں صرف آٹھ گھنٹے بجلی دی جاتی ہے ،دن کے اوقات میں پانچ گھنٹے اور رات کو صرف تین گھنٹے ۔ یہ بجلی مقامی طورپر نصب جرنیٹر سے فراہم کی جاتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے کئی دور دراز کے شہروں میں جنریٹرز نصب ہیں ۔
یہ جنریٹرز 1980ء کی دہائی میں عرب شیوخ نے تحفہ کے طورپر حکومت پاکستان کو نہیں بلکہ مقامی لوگوں کو دئیے تھے ۔یہ شیوخ شکار کیلئے آئے تھے یہاں لوگوں کی حالت زار سے ان کو احساس ہوا کہ دنیا کے گرم ترین علاقے میں لوگ بغیر بجلی کے گزارا کررہے ہیں۔
ابتدائی طورپر سات یا آٹھ شہروں کو یہ جنریٹرز دئیے گئے ۔ حکومت پاکستان نے عوام الناس پر مہربانی کرکے ڈیزل مہیا کرنا شروع کردیا ۔
اکثر اوقات متعلقہ افسران بھول جاتے تھے اور ہفتوں ان دوردراز کے شہروں کو ڈیزل سپلائی نہیں کیا جاتا تھا ، تنگ آکر لوگ سڑکوں پر مظاہرے اور احتجاج کرتے تو متعلقہ حکام ترس کھا کر ڈیزل روانہ کرتے، اس طرح ان کو دن میں آٹھ گھنٹے بجلی خیرات میں دی جاتی ۔
گزشتہ مہینوں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بر ملا اپنی برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت بلوچستان نے کیسکو کو مطلوبہ رقم فراہم کی ہے لیکن ابھی تک نوکنڈی کے لئے پاور ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کاکام مکمل نہیں ہوا۔
انہوں نے بھرے اجلاس میں یہ الزام لگایا کہ آئے دن پاور ٹرانسمیشن لائن کی لاگت میں اضافہ کا دعویٰ کر کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ نوکنڈی معدنیات کے حوالے سے اہم ترین خطہ ہے ، اس میں سونے ‘ چاندی کے ذخائر کے علاوہ تانبہ اور دیگر قیمتی دھاتیں موجود ہیں سندھک ایرانی سرحد سے تقریباً بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔
سندھک کو بجلی نہ دے کر اس کی لاگت پیداواری میں بے پناہ اضافہ کیا گیا، سندھک کا پلانٹ چالیس میگا واٹ بجلی خود پیدا کرتا ہے اور جوپورے پلانٹ کو چلاتا ہے ، اگراس کے لیے تیل ایران سے بیس کلو میٹر کے فاصلے سے درآمد کیاجاتا تو ٹرانسپورٹ کے اخراجات کم ہوتے ۔
حکمرانان اعلیٰ کا حکم ہے کہ سندھک پلانٹ کے کیلئے کراچی سے تیل خریدیں اور تقریباً 1200کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے سندھک کے پلانٹ تک پہنچائیں ۔ اس طرح تیل کی ترسیل میں سینکڑوں آئل ٹینکر استعمال ہور ہے ہیں ۔
دوسری جانب جب ریکوڈک کو ثمر مبارک مند کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگایا۔ اس مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ایران 74000میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے گزشتہ تیس سالوں سے ایران آدھی قیمت پر پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے مگر آج تک ایران سے بڑی مقدار میں بجلی نہیں خریدی گئی ۔
کیونکہ اس سے صرف بلوچستان کو فائدہ ہوتا اور قیمتی دھاتوں کو ترقی ملتی اور پاکستان اس سے اربوں ڈالر کماتا ۔ حکومت ہر بار ڈرامہ رچاتی ہے درجنوں بار حکومتی وفود ایران تفریحی دورے پر جاتے اور واپسی پر مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کرکے آجاتے ہیں۔
اس میں ایک بات واضح ہے کہ جب ہم بجلی پیدا کرتے ہیں تو اس کی لاگت بارہ روپے فی یونٹ ہوتی ہے جبکہ ایران صرف چھ روپے فی یونٹ پاکستان کو بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے ۔
سابق ایرانی سفیر نے کوئٹہ میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ پیش کش کی تھی کہ ایران پاکستان کو دس ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے واضح رہے کہ ایران خطے کے آٹھ ممالک کو بجلی فروخت کررہا ہے ۔
اقوام متحدہ کی پابندیاں ان ممالک پر لاگو نہیں ہوتیں صرف پاکستان واحد ملک ہے جو بین الاقوامی پابندیوں سے خوفزدہ ہے ۔
بلوچستان کے سونے کے کان بجلی سے محروم
وقتِ اشاعت : May 16 – 2017