ایران کے عوام نے ایک بار پھر ایرانی صدر حسن روحانی کے حق میں فیصلہ دیا، انہوں نے59فیصد ووٹ لے کر قدامت پسند عالم ابراہیم رئیسی کو زبردست شکست سے دو چار کیا۔ ابراہیم رئیسی جو امام رضا کے روضہ کے منتظم ہیں کو صرف 38فیصد ووٹ ملے ۔ باقی دو امیدواروں کو چند لاکھ ووٹ ملے ۔
واضح رہے کہ ابراہیم رئیسی کو مذہبی رہنما خمینائی کی حمایت حاصل تھی بلکہ پوری قدامت پسند انتظامیہ ابراہیم رئیسی کی حمایت کررہا تھا حالیہ دنوں میں امام خمینائی نے کم سے کم دوبار حسن روحانی کے خلاف بیانات جاری کیے اور یہ اشارہ دیا کہ مغرب اور مغربی ممالک کے ساتھ وہ زیادہ اچھے تعلقات چاہتے ہیں جس کو قدامت پسند نا پسند کرتے ہیں۔
اس سے قبل مغربی ممالک اور ان کے رہنماؤں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر ایران کے صدارتی انتخابات میں قدامت پسند جیت گئے تو ایران جوہری معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے شاید اس تاثر نے صدر حسن روحانی کی پوزیشن کو مستحکم بنایا اور وہ بڑی اکثریت سے انتخابات جیت گئے اورشاید ایرانی عوام نے صدر حسن روحانی کو امن کا علمبردار سمجھ کر ووٹ دیا تاکہ پورے خطے میں امن کے لئے وہ اپنی کوششیں تیز تر کردیں ۔
گمان ہے کہ لبرل اور آزاد خیال ایرانیوں نے بڑے جوش اور ولولے سے حسن روحانی کو دوبارہ صدر منتخب کرایا ۔ماضی میں جب سابق قدامت پسند صدر دوبارہ منتخب ہوئے تھے تو پورے ایران میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے اور ان کے جیت کو مشکوک بنا دیا تھا۔ قدامت پسندوں کو یہی خطرات لاحق تھے کہ اگر ان کا میدوار دوبارہ حسن روحانی کے مقابلہ میں جیت گیا تو ایران بھر میں دوبارہ اسی نوعیت کے فسادات ہوسکتے ہیں ۔
اس خطرے کے پیش نظر پورے ایران میں سیکورٹی کے زبردست انتظامات کیے گئے تھے اور لاکھوں فوجیوں اور سپاہیوں کو سیکورٹی پر مامور کیا گیا تھا اور یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ہنگامے نہیں ہوں گے یوں پورے ملک میں انتخابات پر امن ماحول میں ہوئے ۔
تقریباً چار کروڑ ایرانیوں نے اپنا حق رائے دیہی استعمال کیا جبکہ ملک میں کل ووٹروں کی تعداد پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ تھی اور اس میں سے چار کروڑ افراد نے ووٹ ڈالا ۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ حسن روحانی خطے میں امن کے قیام یا ایک بڑی جنگ سے بچنے کیلئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں ۔حسن روحانی کے جیتنے کے بعد اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ ایران کا بین الاقوامی جوہری معاہدہ محفوظ ہے ۔
تمام یورپی ممالک، چین اور رو س، ایران اور اس کے جوہری معاہدے کے حق میں ہیں اکیلا ٹرمپ کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ دنیا کی رائے عامہ دوسری جانب ہے شاید وہ جوہری معاملے میں خاموش رہیں اور اس کو نہ چھڑیں لیکن ایران کے صدر حسن روحانی کو عرب ناٹو کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
صدر ٹرمپ سعودی عرب میں ہیں اور اس کے بعد اسرائیل جائیں گے بعض مبصرین کا یہ خیال ہے صدر ٹرمپ اس دورے میں ایران کے خلاف اسرائیلی اور سعودی فوجی محاذ کو مضبوط تر بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ ایران پر دباؤ ڈالاجائے کہ وہ شام اور عراق میں مداخلت اور حوثی باغیوں کی یمن میں حمایت بند کردے اور ان معاملات کا سیاسی حل نکالے اس میں سابق یمن سیاسی حکومت کی بحالی شرط ہے ۔ اگر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا اور معاملات زیادہ خراب ہوگئے تو پورے خطے میں جنگ کے بادل چھائیں گے۔