|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2017

پاکستان میں پولیس کا نظام انتہائی کمزور اور فرسودہ ہے۔اس نظام میں کمزور کو سزا اور طا قتور کو انصاف ملتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں اکژ کیسز میں تفتیش صحیح معنوں میں میرٹ پر نہیں ہوتا۔جس کی وجہ سے92 فیصد لوگ فوجداری میں بچ جاتے ہیں۔

100 میں سے 8 فیصد پرچے عدالت میں چلے جاتے ہیں لیکن عدالتی نظام میں عدم ثبوت کی بنا پر اکثر مجرم سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ایک بہت ہی ضروری پہلو یہ ہے کہ پولیس میں تعیناتی مکمل طور پر میرٹ پر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے تھانہ کلچر فروغ پا رہا ہے۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر با اثر افرادسے جب کوئی جرم سرزد ہوجائے تو سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد تھانوں پر دباؤ ڈال کر ان مجرموں کو قانون کے شکنجے سے آزاد کرواکر غریب افراد پر پریشر ڈالتے ہیں۔پولیس کا نظام تب ٹھیک ہوگا جب ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہیں گے۔

موجودہ نظام میں دیکھا گیا ہے کہ غریب بیچارے کا تو پر چہ ہی درج نہیں کیا جاتا اور اثرورسوخ والے افراد کے پاس پولیس گھر جا کر تواضع سے بھی شرم محسوس نہیں کر تا۔تھانوں میں رشوت اور کرپشن عام اور اسکو پولیس سسٹم کا حصہ سمجھتی ہے۔

آج کل سنا ہے کہ پولیس سسٹم کو کمپیو ٹرازڈ کر دیا گیا ہے لیکن اس سے میرا ذاتی اختلاف ہے کہ سسٹم ایسا ہوناچائیے جس میں ہر ضلع میں ایک ایسا سنٹر قائم ہونا چائیے جس میں عام شہری تھانے سے ہٹ کر اپنا ایف آئی آر درج کرا سکے۔

خا لی آئن لائن سے مسئلہ حل نہیں ہوگاکیونکہ سسٹم کمپیو ٹرائزڈ کرنے سے مسئلہ جوں کا توں رہے گا تھانے سے ہٹ کر ایک آن لائن سسٹم ہو اور اس آئن لائن سسٹم کے تحت متعلقہ تھانہ 12 گھنٹے میں کاروائی کر کے رپورٹ اس سسٹم پر اپلوڈ کرے اور کاروائی نہ کرنے کی صورت میں اس متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف کاروائی ہونی چائیے۔اور اگر اس پر 24 گھنٹوں میں عمل درآمد نہیں ہو تو اس سسٹم کو سیشن کورٹ کے ساتھ لنک ہونا چائیے تو سیشن کورٹ اس ایس ایچ او سے سوال کرے کہ پر چہ کیوں درج نہیں ہوا اور کاروائی کس وجہ سے عمل میں نہیں لائی گئی۔

یہ نہیں ہونا چائیے کہ بیچارہ غریب آدمی وکیل کر ذریعے درخواست دے اور اس کے بعد وہ وکیل کے ایماء پر چھوڑا جائے۔اور اسی طرح سیشن کورٹ کا لنک ہائی کورٹ اور اسکا اعلیٰ عدالت سے ہو۔تو اس درمیان کوئی بھی کوتائی کا ذمہ دار ہو تو اس کے خلاف کاروائی ہونی چائیے۔

اگر کوئی پرچہ غلط ثابت ہوجائے تو کم از کم اس شخص پر اتنی سزا ہو کہ جو دفعہ مخالف پر لگا ئی گئی اس کی آدھی سزا اس پر چہ درج کرنے والے کو ہو نی چائیے۔جس کی وجہ سے جھوٹا پر چہ کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی سامنے آئے گی۔

اس کے علاوہ عدالت میں کسی شخص کے خلاف گواہی دینے والے کی گواہی راز میں رکھی جائے تو اس سے لوگوں کو مجرموں کے خلاف گواہی دینے میں آسانی ہوگی اور ان کا اعتماد پولیس اور متعلقہ اداروں پر بڑھے گا۔

اس نظام سے سیاسی افراد کا عمل دخل بھی مکمل طور پر ختم ہونا چائیے آئین کے آرٹیکل63 میں ہونا چائیے کہ جو بھی سیاست دان پولیس کے معاملات میں مداخلت کرتے پایا گیا تو اس کو نااہل ہونا چائیے۔اور اس کے خلاف بھی پر چہ درج ہونا چائیے۔

سا ئبر کرائم کے حوالے سے اس سسٹم میں ہیلپ لائن نمبر ہو جس پر عوام اپنی شکایات درج کر اسکیں اور ان کے خلاف موثر کاروائی ہونی چائیے تا کہ سائبر کرائم پر قابو پایا جاسکے۔اس کے علاوہ ملزموں سے تفتیش کی وڈیو ریکارڈنگ ہونی چائیے اور اس کا ڈیٹا سسٹم میں رکھنا چائیے۔

گواہوں کے پروٹیکشن کے لیے قانون سازی ہونی چائیے۔پولیس تھانوں میں بہتر کارکردگی کرنے والے آفیسران کو مراعات اور ان آفیسران کے خلاف کاروائی ہونی چائیے جو کرپشن ،اقرباپروری،اورجعل سازی کے مر تکب ہوں ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چائیے اور ان کو ڈی موٹ ہونا چائیے۔

اس کے علاوہ عوام کی سہولت کے لیے ایس ایم ایس سروس کا اجراء بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر ان سفارشات پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہو تو اس پر با آسانی عمل کیا جاسکتا ہے اور عوام تھانہ اور کچہری کے چکر کا ٹنے سے بچ جائیں گے ۔

اس طرح عوام کا پولیس اور عدلیہ پر اعتماد بحال ہوگا اور آدھے جرائم ویسے ہی ختم ہوجائیں گے۔ اس سے مافیا کو بہت نقصان ہوگا اور مجرم جرم کرنے سے کترائیں گے۔