|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2017

ان دنوں سیاسی حلقوں میں فاٹا اصلاحات کو موخر کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ حکومت نے فاٹا اصلاحات کے لئے کمیشن بنایا تھا، اس کمیشن نے پہلا مشورہ یہ دیا کہ موجودہ فاٹا کو مکمل طورپر کے پی کے میں انتظامی اور آئینی طورپر ضم کیاجائے تاکہ عوام کو تمام تر انسانی حقوق حاصل ہوں ۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں بلکہ فاٹا کے عوام کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، وہاں ابھی تک انگریز کا نافذ کردہ ایف سی آر رائج ہے جو ہر طرح سے ایک کالا قانون ہے ۔

فاٹا پاکستان کا حصہ ہے مگر پاکستان کے تمام بڑے بڑے سیاسی رہنماء اور قائدین ادھر نہیں جا سکتے ، نہ وہاں سیاسی جلسہ کر سکتے ہیں نہ پارٹی دفاتر بناسکتے ہیں اور نہ ہی تنظیم سازی کر سکتے ہیں ۔

ان معاملات کو سلجھانے کے لیے حکومت نے فاٹا اصلاحات کمیشن بنایا تھا جس کے اراکین میں دوسروں کے علاوہ جنرل عبدالقادر بلوچ اور سرتاج عزیز شامل تھے ۔ انہوں نے حکومت کو مثبت سفارشات پیش کیں جو سب کے سب منظور ہوئیں لیکن جب قانون سازی کا مرحلہ آیا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے تو اچانک ریاستی فیصلے میں تبدیلی کا اشارہ آگیا ۔

فاٹاکے ایک نمائندہ وفد کو جنرل عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ مقتدرہ اس کے حق میں نہیں ہے لہذا یہ عمل غیر معینہ مدت کے لئے موخر کیاجاتا ہے ۔ اس پورے عمل کے خلاف دو شخصیتیں تھیں ایک مولانا فضل الرحمان اور دوسرے محمود خان اچکزئی ‘ دونوں حضرات اپنا اپنا پارٹی ایجنڈا رکھتے ہیں اور دونوں حکومت اور خصوصاً حکمران مسلم لیگ کے اتحادی ہیں ۔ محمود خان اچکزئی تو بلوچستان میں بھی مسلم لیگ کے اہم ترین اتحادی ہیں ۔

یہ دونوں حضرات روز اول سے فاٹا اصلاحات اور خصوصاً فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کے مخالف ہیں بلکہ قومی اسمبلی کے سیشن میں اس وقت شور اور ہنگامہ کھڑا ہوگیا جب محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی کے فلور پر یہ مطالبہ کیا کہ فاٹا کو آزاد علاقہ قرار دیا جائے۔

ان کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان فاٹا No man’s landآزاد علاقہ ہو جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے لوگ آزادانہ طورپر آمد و رفت کریں۔ اس پر بہت زیادہ شور اٹھا اور محمود خان اچکزئی کو حدف تنقید بنایا گیا بعض قومی اسمبلی کے اراکین نے ان پر الزامات بھی لگائے ۔

بہرحال فاٹا کاکے پی کے میں انضمام غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے کیونکہ مقتدرہ اس کے حق میں نہیں ہے اس کی وجوہات نہیں بتائیں گئیں لیکن گمان ہے کہ افغانستان کے ساتھ غیر دوستانہ تعلقات اور سرحد کی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ تبدیل کیا گیا ہے۔

زیادہ بہتر صورت حال میں اس پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے ۔ افغانستان کے بعض مفتوحہ علاقے بلوچستان میں انتظامی طورپر شامل کیے گئے تھے انگریز نے یہ فیصلہ کیا تھا اس کے بعد حکومت پاکستان نے بھی اس کی توثیق کی اور ان کو بلوچستان کا حصہ رہنے دیا حالانکہ اکثریتی بلوچ عوام نے کبھی بھی اس کو بلوچ سرزمین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔

اس لیے وہ اکثر یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ پہلے فاٹا اور بلوچستان کے مفتوحہ علاقوں کو بھی کے پی کے میں ضم کرکے پشتونوں کا ایک بڑا اور وسیع صوبہ بنایا جائے تاکہ وفاق پاکستان میں ان کی نمائندگی زیادہ موثر ہو اور ان کو جلد سے جلد انتظامی طور سے بلوچستان صوبے سے الگ کیاجائے ۔

زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان کو وسیع تر پشتون صوبہ کا حصہ بنایا جائے ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو مفتوحہ علاقوں کو ایک اور ایجنسی میں شامل کیاجائے۔

 یہ علاقے بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں ہیں اس لیے ان کا بلوچستان میں موجود رہنا غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہے کیونکہ یہ بلوچ عوام کی مرضی کے بغیر شامل کیے گئے ہیں یہ مطالبہ کرنا بلوچ عوام کا قانونی اور آئینی حق ہے کہ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچستان سے الگ کیاجائے ۔