واشنگٹن: امریکا نے تصدیق کی ہے کہ عراق کے شہر موصل میں رواں سال مارچ میں داعش کے خلاف آپریشن کے دوران ایک عمارت پر کی جانے والی فضائی کارروائی میں 100 سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے امریکی فوج کے تفتش کاروں کا ماننا ہے کہ ضلع الجدیدہ میں ہونے والی امریکی فضائی کارروائی کے باعث داعش کی جانب سے ایک عمارت میں لگایا گیا دھماکا خیز مواد پھٹ گیا جس کے نتیجے میں عمارت گرگئی۔
مقامی حکام اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ اس فضائی کارروائی میں کم سے کم 240 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کو عراق اور شام میں امریکی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جارہا تھا۔
امریکی ایئر فورس کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو اسلر، جو مذکورہ تحقیقات کو دیکھ رہے تھے، نے میڈیا کو بتایا کہ 17 مارچ کی فضائی کارروائی داعش کے دو اسنائپرز کے خلاف کی گئی تھی۔
تاہم اس فضائی کارروائی کے نتیجے میں عمارت میں نصب دھماکا خیز مواد پھٹ گیا، جس سے عمارت گر گئی۔
امریکی فضائیہ کے افسر نے کہا کہ امریکا اور عراقی فورسز کو یہ معلومات نہیں تھیں کہ عمارت میں شہری موجود ہیں اور نہ ہی انھیں عمارت میں نصب دھماکا خیز مواد کے بارے میں کچھ علم تھا۔
انھوں ںے مزید کہا فضائی کارروائی میں عمارت میں موجود 101 شہری ہلاک ہوگئے تھے، 6 شہری دھماکے کے وقت عمارت کے قریب موجود تھے وہ بھی ہلاک ہوئے تاہم دیگر 36 افراد کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
مذکورہ تحقیقات سے قبل داعش کے خلاف امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کا کہنا تھا کہ 2014 سے شام اور عراق میں کی جانے والی مختلف فضائی کارروائیوں میں کم سے کم 352 شہری ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن یہ اعداد و شمار دیگر گروپس کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداوشمار سے کئی گنا کم ہیں۔