|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2017

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان گزشتہ تین سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 سے 100 ارب روپے سالانہ خرچ کر رہا ہے ۔جمعرات کے روز اسلام آباد میں اقتصادی سروے 2016۔17 پیش کیے جانے کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ عالمی امن کی خاطر پاکستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پاکستان میں 25 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں مسلح افواج کے اہلکار بھی شامل ہیں اور اتنی ہی تعداد زخمیوں کی ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں 123 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس رقم سے پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی بحالی، آبادکاری و تعمیر، عارضی طور پر بے گھر افراد کی سواری کے اخراجات ،ان کے اناج اور اِس میں 57 سول آرمڈ وِنگز کی تشکیل کے اخراجات بھی شامل ہیں۔

اقتصادی سروے رپورٹ جاری کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے دس سال کے دوران پہلی بار پانچ فیصد کی سطح سے آگے بڑھ کر 5.28 فیصد کی شرح سے مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا ہدف حاصل کیا ہے اور جی ڈی پی میں تیزی کا یہی رجحان گزشتہ تین سال سے دیکھنے میں آرہا تھا جسے برقرار رکھا گیا ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان کی معیشت کا حجم پہلی بار 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو ایک تاریخی موقع ہے۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جی ڈی پی جیسے اہم قومی اہداف حاصل کیے جا سکیں ہمیں 2030ء کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا تاکہ پاکستان جی20 ممالک کا رکن بن سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ نائن الیون کے بعد سے کررہا ہے اسی دوران پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا اوراس جنگ میں شدید متاثر بھی ہوا۔

دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ شدت پسندوں نے تعلیمی اداروں، سیکیورٹی اداروں، وکلاء، صحافیوں سمیت مختلف شعبوں کے لوگوں کو نشانہ بنایا جس میں بڑی تعداد میں لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ پاکستان نے اندرون خانہ حالات کو بہتر کرنے کیلئے کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز بھی کیا مگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اس دوران دو آپشن تھے طاقت کا استعمال یا پھر مذاکرات ۔

مذاکرات کی صورت میں جو لوگ قومی دھارے میں شامل ہوناچاہتے ہیں ان کیلئے عام معافی کااعلان کرتے ہوئے ان کی بحالی کیلئے ایک مناسب بجٹ مختص کیاجانا۔ اس پالیسی میں وہ تمام تنظیمیں شامل ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلارہی تھیں۔

اس دوران حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے ملکر پالیسی مرتب کی اور اس کے نتائج بھی برآمد ہوئے جنگجوؤں کی بڑی تعداد سرینڈر ہونے لگی ۔اس کی ایک بڑی مثال کالعدم تنظیم کا اہم کارندہ اورترجمان احسان اللہ احسان ہے جس نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ احسان اللہ احسان نے کھل کر کہا کہ انہیں پڑوسی ملک استعمال کررہا تھا۔ آج بھی پاکستان کی جانب سے افغانستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے بیانات دیئے جارہے ہیں مگر اب تک مثبت جواب نہ ملنے کی وجہ سے خطے میں حالات کشیدہ ہیں ۔

پاکستان دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑرہی ہے اور اس کیلئے مخصوص بجٹ بھی مختص کیا گیا ہے جس سے دہشت گردتنظیموں کے خلاف نہ صرف جنگ لڑی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی عام معافی کے بعد زندگی کو بحال کرنے کیلئے سہولیات بھی دینا مقصود ہے۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات پر کوئی سوال اٹھایا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ایک اچھا عمل ہے جسے ہر جگہ سراہا جارہا ہے اپوزیشن جماعتیں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں۔


پاکستان میں امن اور خوشحالی کیلئے بجٹ میں مزید رقم مختص کرنا ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے جس پر یقیناًعملدرآمد ہونا چاہئے کیونکہ عوام کی طرز زندگی بدلنے کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت کو فروغ دینا اورلوگوں کو مہنگائی سے نجات دلانا بھی ضروری ہے ۔