|

وقتِ اشاعت :   May 28 – 2017

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعے کی شام پارلیمان کے سامنے اپنی حکومت کا پانچواں بجٹ پیش کیا جس میں گزشتہ چار بجٹ کی طرح اس بار بھی زیادہ توجہ مواصلات کے نظام اور توانائی کے شعبے پر مرکوز رکھی گئی ۔

حکومت نے 1001 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہیں جس میں سے401 ارب روپے توانائی کے شعبے کے لیے رکھے گئے ہیں جس کا بڑا حصہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔اس رقم کو خرچ کر نے کے بعد حکومت کو توقع ہے کہ وہ اگلے سال تک بجلی کی پیداوار میں 10 ہزار میگا واٹ تک کا اضافہ کر سکے گی۔ اس کے علاوہ 320 ارب روپے شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔

ان میں سی پیک کے تحت بننے والی شاہراہیں بھی شامل ہیں۔حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے اور 2009 اور 2010 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دئیے جانے والے ایڈہاک ریلیف الاؤنس بھی بنیادی تنخواہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ فوجی افسروں اور جوانوں کی خدمات کے پیش نظر ان کی تنخواہوں میں مزید دس فیصد کا عبوری الاؤنس شامل کیا گیا ہے۔حکومت نے دفاعی بجٹ میں تقریباً 9 فیصد اضافہ کر کے اسے 920 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ پچھلے سال یہ اضافہ 11 فیصد تک تھا۔ حکومت کئی برس سے ملکی دفاعی بجٹ میں افراط زر کے تناسب سے اضافہ کرتی رہی ہے اور اس بار بھی یہ روایت برقرار رکھی گئی ہے۔زرعی شعبے کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت نے تین برس قبل جو کسان پیکج دیا تھا حالیہ بجٹ میں اسی پیکج کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

نئے اقدامات میں ساڑھے بارہ ایکڑ زمین کے مالک کسانوں کے لیے 50 ہزار روپے تک کے قرضوں کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے کسانوں کو یقین دلایا کہ اس سال کے دوران کھاد کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائیگا۔وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں ٹیکس نظام میں اصلاحات یا نئے لوگوں کو ٹیکس نظام میں لانے کے لیے اقدمات کا ذکر نہیں ہے۔ موبائل فونز پر ٹیکسوں میں کمی اور سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بعض اقدامات کا اعلان کیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت اسٹاک مارکیٹ سے مزید آمدن کی توقع کر رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے ان کے لیے بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ حسب روایت اسی طرح ہی ہے جس طرح ماضی کے بجٹ رہے ہیں، چھوٹے صوبوں کی ترقی کو زیادہ خاطر میں نہیں لایاگیا ہے، خاص کر سی پیک کے لیے مختص رقم کی بات کی جائے تو اس پر پہلے سے ہی بڑے منصوبوں پرکام جاری ہے اس کے علاوہ بلوچستان میں خاص کر بڑا مسئلہ زمینداروں کا ہے جنہیں نہ ریلیف زیادہ ملتی ہے اور نہ ہی یہاں کے زرعی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے ان پر کوئی توجہ دی جاتی ہے۔

بلوچستان میں زمیندار بجلی کی عدم فراہمی ودیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے یہاں کے زمینداروں کو ریلیف دینے کیلئے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے حالانکہ یہ ن لیگ حکومت کا آخری بجٹ تھا اورسرکاری ملازمین کافی بلند توقعات لیے بیٹھے تھے لیکن اسحاق ڈار نے اپنی روایت برقرار رکھی یعنی جہاں ملازمین کی بات آجائے تو ن لیگ حکومت کو دس سے آگے گنتی نہیں آتی یوں مزدوروں اور سرکاری ملازمین کی امیدوں پر پانی پڑگیا۔

جہاں تک ٹیکس نادہندگان کا معاملہ ہے اس پر بارہا اقدامات اٹھانے کی بات کی گئی ہے مگر ہمارے یہاں غریب لوگ ہی سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ہر اشیاء پر ٹیکس اداکرتے ہیں ۔بڑے بڑے صنعت کار اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس سے بری الذمہ ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن نہیں لیاجاتا جو اب بھی بڑی تعداد میں ٹیکس نادہندگان میں شامل ہیں۔

ملک کی ترقی میں اہم کردار ہی ہمارے کسان مزدوروں کا ہوتا ہے جنہیں زیادہ ترجیح دینا چاہئے تھا مگر انہیں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ جہاں تک بجٹ میں اعلانات کا تعلق ہے ان کا برائے راست فائدہ ہمارے کسان اور مزدوروں کو نہیں ملتا جس کی بڑی وجہ مانیٹرنگ کا موثر نظام نہیں ہے۔

مسلم لیگ ن حکومت کی جانب سے آخری بجٹ پیش کیا گیا اب آنے والی حکومت کس کی ہوگی اور وہ ان تمام مسائل اور جاری منصوبوں کو کس حد تک کامیابی سے ہمکنار کرے گی یہ انہی کے دعوؤں پر منحصر ہے۔