صدرمملکت ممنون حسین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں لیکن اسے انتشار میں بدلنے سے روکا جانا چاہیے۔صدرممنون حسین نے کہا کہ تاریخ اس پارلیمان کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔
مشترکہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان، وزرائے اعلیٰ، چاروں صوبوں کے گورنر، وفاقی وزراء اور سفارت کار بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ملکی جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اب بھی پارلیمان کا حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف سفر جاری ہے۔
ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے صدر ممنون حسین کا کہنا تھا قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن اسے انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت عملی کے ساتھ بند کر دیا جائے تاکہ ملکی ترقی کو روکنے کا عمل ناکام بنایا جا سکے۔
صدر ممنون نے پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بھارت لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف مسئلہ کشمیر ہے جو برصغیر کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔
انہوں نے بھارت کے جارحانہ طرز عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اپنے طرز عمل کی وجہ سے بھارت اس خطے میں سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا ہے۔انہوں نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کی منسوخی کے حوالے سے کہا کہ یہ بدقسمتی تھی کہ بھارت کے رویے کی وجہ سے یہ اہم کانفرنس منعقد نہ ہوسکی۔
صدر نے بدھ کو کابل میں ہونے والے خودکش حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام نہیں آسکتا ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کا اپنے خطاب میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور انتشاری کیفیت کے خاتمے پر بات کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ترقی بلکہ خطے میں خوشحالی کیلئے بھی کوشاں ہے۔
پاکستان میں انتشار کی کیفیت جس طرح پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے یقیناًاس کے پیچھے پڑوسی ملک کی مداخلت کوئی راز نہیں اور اس کے شواہد بھی سامنے لائے گئے ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتا ہے اور اسی طرح کشمیر کے متعلق پاکستان کے مؤقف میں کوئی لچک نہیں آئی جو اقوام متحدہ کے قراردادکے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے امنگوں کا ترجمان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت بھی دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ لڑرہی ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش رکھنے والے اس میں اپنا کردار ادا کریں خاص کر وہ ممالک جو اس وقت دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
دُنیاپر پاکستان کا مؤقف روز روشن کی طرح عیاں ہے افغانستان کے حوالے سے نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری قیادت کا مؤقف بھی یہی ہے کہ پُرامن افغانستان اس خطے کیلئے انتہائی ضروری ہے جس کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے مگر حالیہ کشیدگی کے باعث افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات پر برے اثرات پڑے مگر اس کے باوجود پاکستان کی جانب سے بار بار امن دوستی کا ہی پیغام جارہا ہے جس کو افغانستان کی حکو مت سنجیدہ لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے کیلئے تعاون کرے۔
افغانستان میں جب بھی مسائل نے جنم لیا تو پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ دیا جس کی واضح مثال آج بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی ہے جن کی مہمان نوازی میں پاکستان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کے علاوہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ۔
اب یہ پڑوسی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے میں پائیدار امن اور یہاں کے عوام کی خوشحالی کیلئے ماحول کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں کیونکہ جنگی جنون اس خطے کو مزید تباہی سے دوچار کرے گی جس کا متحمل کوئی نہیں ہوسکتا۔ امن ہی واحد راستہ ہے جو اس خطے میں بڑی تبدیلی لاسکتا ہے جویہاں کے حالات کو بدل کر رکھ دے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی اقوام متحدہ میں شامل ممالک بھی حالیہ کشمیر میں مظالم پر آواز بلند کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ مظالم کو فوری روکا جاسکے۔ صدرممنون حسین کا خطاب خطے میں امن کیلئے ایک مثبت پیغا م ہے جس بھار ت کو غور کرنا چائیے۔