حب: سات سمندر پار فرانسیسی باشندوں کو درگاہ شاہ نورانی کی محبت کھینچ لائی ،20دن تک پیدل دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کو عبور کر درگاہ پہنچنے والے زائرین کیساتھ سعادت حاصل کرنے والوں میں فرانسیسی باشندے بھی شامل ۔
بزرگان دین سے والہانہ محبت رکھنے والوں کی محبتیں اور خوشگوار یادیں سمیٹ کر مہمان واپس اپنے ملکوں میں چلے گئے تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے دورافتادہ پہاڑی علاقے وادی خضدار کی ایک اہم زیارت گاہ درگاہ شاہ نورانی اور ، لاہوت لامکان سے بین الاقوامی شہرت رکھنے والی قدیم ترین درگاہ شاہ نورانی کے سالانہ 558ویں عرس ومیلے کے تقریبات میں جہاں دنیا بھر سے عقیدت مند تشریف لاتے ہیں۔
اس مرتبہ فرانس سے تعلق رکھنے والے اسکالرو معروف دانشور جون اور اسکا ساتھی رمضان المبارک سے قبل شعبان کی پندرویں تاریخ سے سیہون شریف سے پیدل درگاہ شاہ نورانی کے سفر کی سعادت حاصل کرنے والے زائرین کے قافلوں میں شامل ہوکر گزشتہ دنوں درییجی کے پہاڑی علاقوں میں قیام کے بعد محبت فقیر کے مقام پر پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال اور سردار اختر جان مینگل کے نمائندے مولابخش مینگل کی جانب سے مہمانوں کو رہائشی سہولیات فراہم کی گئیں ۔
بلوچستان کے دورافتادہ علاقے وادی خضدار میں صدیوں پرانی واقع درگاہ سے منسلک ایک اہم زیارت گاہ لاہوت لامکان کہلاتی ہے اس جگہ کے بارے میں روایت ہے کہ کائنات میں سب سے پہلے اس مقام کو تخلیق کیا گیا اور کچھ روایات کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو اس جگہ پر اتارا گیاتھا۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہرسال یہاں دشوار گزار پہاڑی راستوں کو عبور کرکے یہاں پہنچتے ہیں ا س کے نزدیک ایک مشہور بزرگ سخی بلاول شاہ نورانی کا مزا ر بھی واقع ہے کراچی سے حب دریجی بلوچستان کے راستے جاتے ہوئے اس سلسلہ کا پہلاپڑاؤ محبت فقیر کے مزار پر ہوتا ہے انکے بارے میں روایت ہے کہ یہ حضرت علی کے غلام تھے شاہ بلاول نورانی یہاں سے نزدیک ترین ہے ۔
اسکے نزدیک ایک مسجد بھی ہے جسکے بارے میں کہا جاتاہے کہ اسے کسی نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی وجود میں آئی ،یہاں ایک دیدہ زیب پتھر بھی نظر آتاہے حضرت علی قدم گاہ سے نزدیک ہی پریوں کا باغ بھی ہے اس باغ میں کجھور املی اور دوسرے جنگلی درختوں کے ساتھ آم کے درخت بھی نظر آتے ہیں جن میں جاہ بجا اللہ کا لفظ واضح نظرآتاہے ۔
یہاں کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ ایک ظالم دیو گوکل کی سلطنت قائم تھی او ر لو گ اس سے تنگ تھے ان لوگوں نے اللہ سے فریادیں اور دعائیں مانگیں ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف لائے جنھوں نے اس دیوکو شکست دیکر لوگوں کو اس کے ظلم سے نجات دلائی ،یہ بزرگ شاہ بلاول نورانی تھی جن کا مزار آج بھی صدیوں سے عقیدت مندوں اور زائرین کیلئے قائم ہے جنات ودیو سے اس مقابلے کے نشانات پہاڑ کے سنگلاخ بدن پر آج بھی موجود ہیں ۔
اس پہاڑی علاقے پرجابجا ایسے نشانات موجود ہیں جس پر بھاگتے قدموں کے نشانات خراشوں اور لڑائیوں کے نشانات کئی صدیاں گزرنے کے باوجود موجود ہیں روایات میں ہے کہ گوکل دیوکو قید کرکے باغ اور اسکے مضافات میں پانی پہنچانے کا کام سونپ دیا گیا اور صدیوں سے بہتے ہوئے اس چشمے سے پریوں کا باغ اور دیگر کھیت سیراب ہورہے ہیں ۔
اس باغ میں اصلی زیارت گاہ لاہوت لامکان کے راستے نکلتے ہیں پیدل زائرین لئے سات پہاڑوں کو عبور کرکے زیارت گا ہ پہنچنا پڑتا ہے اس راستے سے صرف سخت جان لوگ ہی گزرسکتے ہیں فرانسیسی باشندوں کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی،دوسرا راستہ قدرے آسان ہے اس راستے پر لوہے کی سیڑھیاں موجود ہیں دیکھنے میں یہ سیڑھیاں بہت ہی کمزور لیکن کئی سومن وزن برداشت کرلیتی ہیں ۔
یہاں سے آگے ایک اور جگہ آتی ہے جو حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہاں آگ جلائی اور چلہ کشی کی،اس کے بعد ایک غار آتاہے اور غار میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے پاؤں ایک ایسے پتھر پر پڑتا ہے جو شیر کی صورت کا ہے اسے نگہبان کہا جاتا ہے ۔
یہ شیر روایت کے مطابق ان زیارت گاہوں کی حفاظت پر مامورہے اس غار میں داخل ہونے سے قبل ایک خاص صابن سے منہ دھونا پڑتاہے یہ صابن پتھرپر پانی گرنے سے بنتاہے اس سے منہ دھوتے ہی غار کا اندھیرا ختم ہوجاتاہے اور ہرچیز روشن ہوجاتی ہے اس غار میں پتھر کی بنی ایک اونٹنی بھی ہے اور ایک پتھر بھی ہے جو فرش سے برآمد ہوکر غار کی چھت کی طرف بڑھ رہاہے اسی جگہ پر پتھر کا ایک چولہا بھی موجود ہے۔
جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ دختر رسول خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ الزہرہ کا چولہاہے یہاں ایک قدرتی چشمہ بھی موجود ہے جو سبیل کہلاتا ہے اس چشمے کے نیچے ایک قدرتی پتھر کا پیالہ بھی ہے جو عین اس پیالے کے اوپر پہاڑوں سے پانی ٹپکارہا ہے ۔
سیڑھیاں عبور کرنے کے بعد اس پتھر سے سامنا ہوتا ہے جس میں ایسی صورت موجود ہے جو کسی خونخواہ جانور کی شبیہہ کی طرح ساکن ہے کہا جاتاہے کہ یہ ایسی بلاء تھی جو روزانہ دیک بھر دال منوں کے حساب سے روٹیاں کھاتی تھی ،زائرین درگاہ شاہ نورانی آمد کے بعدیہاں آکر بکروں کا صدقہ نزر ونیاز دیتے ہیں اور جئے جبل شاہ نورانی نور ، نعرئے حیدری کے پراثر نعروں کیساتھ درگاہ نورانی کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
چادریں چڑھانے اور پھول نچاور کرنے کے بعد منتیں اور دعائیں مانگتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد انکی دکھی دلوں کو سکون ملتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
درگاہ شاہ کے زائرین کی رہائشی سہولیات کیلئے رکن بلوچستان اسمبلی وبی این پی کے قائدسردار اختر مینگل کی جانب سے مسافرخانوں کی تعمیرپانی کے نئے بور لگانے ، موبائل ٹاور کی تنصیب اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں ایک ہسپتا ل قائم کیا جائے تاکہ دوردراز علاقوں سے آنے والے زائرین کیلئے طبی سہولیات فراہمی کا بھی انتظام ہوسکے۔