|

وقتِ اشاعت :   June 8 – 2017

بلوچستان کا ہر بڑا اور میگا منصوبہ اسکنڈلز کا شکار رہا ہے۔ 1950ء کی دہائی سے آر سی ڈی ہائی وے ‘ پٹ فیڈر ‘ بولان میڈیکل کالج ‘ بلوچستان میں قومی شاہراہیں ‘ گوادر کو پانی کی فراہمی کے تمام سابقہ منصوبے بشمول آکڑہ کور ڈیم سب کے سب کرپشن کے بہت بڑے مراکز رہے ہیں ۔

اب ان کی جگہ کچھی کینال نے لے لی ہے، آج دن تک کچھی کینال پر 65ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہو چکی ہے لیکن اس کا پہلا فیز تاحال مکمل نہیں ہوا ۔ گزشتہ سال ٹھیکیدار اور پروجیکٹ ڈائریکٹر نے پہلا فیز مکمل کرنے کا دعویٰ کیا اور اس حصہ کو حکومت کے حوالے کرنے کی ناکام کوشش کی۔

جب ماہرین نے اس حصے کا معائنہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ مکمل طورپر غیر معیاری تعمیرات پر مشتمل تھا اور کسی طرح بھی یہ کام قابل اطمینان نہیں تھا ۔

اس میں موجود تمام خامیوں کی نشان دیہی کی گئی اور ٹھکیدار اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کو حکم دیا گیا کہ وہ ان حصوں کی دوبارہ تعمیر کریں لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ بنیادی خامیاں دور نہیں ہو سکیں لیکن اب کہیں جاکے لگتا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں تعمیر نو کاکام مکمل ہوجائے گا اور اس کا پہلا مرحلہ حکومت کے حوالے کیاجائے گا۔

پہلا مرحلہ بگٹی قبائلی علاقے کے اسی ہزار ایکڑ زرخیز زمین کو سیراب کرے گا لیکن آزاد ماہرین معاشیات نے حکومت بلوچستان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ پکی اور سیمنٹ سے تیار شدہ نہری نظام کو قبول کیاجائے ورنہ کچھی کینال بھی پٹ فیڈر کی طرح زرخیز زمینوں کو سیم اور تھور کا شکار بنا کر تباہ کر دے گا، جس سے رہی سہی معیشت بھی تباہ ہوجائے گی۔کچھی کینال پر اب تک 65ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہو چکی ہے اور اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے والا ہے ۔

ابتداء میں اس کا تخمینہ 50ارب روپے لگایا گیا تھا ۔اس کی تعمیرمیں چونکہ بہت زیادہ دیر لگائی گئی اور جان بوجھ کر بیس سال کا عرصہ ضائع کردیا گیا اس لیے اب اس کا تخمینہ 130ارب روپے لگایاجارہا ہے ۔کچھی کینال کی تعمیر کا مطالبہ بلوچستان کے سابق گورنر غوث بخش بزنجو نے 1972ء میں بہ حیثیت صوبائی گورنر کیا تھا ۔

1991ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کی نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا ۔ بلوچستان کی نمائندگی نواب ذوالفقار علی مگسی نے کی جو اس وقت وزیر ترقیات اور منصوبہ بندی تھے ۔ اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی سندھ کے نہری نظام سے دیاجائے گا ۔

چونکہ پانی کے استعمال کیلئے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا اس لیے کچھی کینال کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ منصوبہ پہلے ہی منصوبہ بندی کمیشن حکومت بلوچستان نے روانہ کیا تھا، اس کے ذریعے اضافی نہری پانی بلوچستان کو ملنا تھا ۔

کنال کی غیر موجودگی میں بلوچستان کے حصے کا پانی سندھ اور پنجاب استعمال میں لارہے ہیں ۔ اور یہ دونوں طاقتور ترین صوبوں کے مفاد میں تھا کہ اس منصوبہ پر عمل درآمد سست رفتاری سے کی جائے ۔

1991ء سے لے کر آج تک دس ہزار کیوسک اضافی پانی کو سندھ اور پنجاب استعمال میں لارہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں سات لاکھ ایکڑ زمین کی 21سالوں کی فصلوں کانقصان بلوچستان کو جان بوجھ کر پہنچایا گیا ، سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا ثبوت صوبائی حکومتوں نے دیا ۔

انہوں نے اپنی حکومتوں کو بچانے اور ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر وفاق پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا، سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں فروعی سیاست کرتی رہیں اور انہوں نے کبھی بھی بلوچستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا ۔

اگر کچھی کینال بیس سال سے پہلے تعمیر ہوچکا ہوتا تو بلوچستان کے عوام بیس سالوں میں اپنی زمینوں سے بہت ساری فصلیں حاصل کرچکی ہوتیں اور غربت میں کافی حد تک کمی آچکی ہوتی ۔