حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے کیونکہ حکومت سپریم کورٹ کے قائم کردہ جے آئی ٹی سے کچھ زیادہ پریشان نظر آرہی ہے ۔ آئے دن مسلم لیگی رہنماء جے آئی ٹی پر زور دار حملے کررہے ہیں،جوشاید حکومت کو جے آئی ٹی سے فوائد حاصل نہ ہونے کی نوید ہے ۔
اس لیے درجنوں مسلم لیگی لیڈر اور وزراء وزیراعظم اور اسکے خاندان کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ صبح و شام پریس کانفرنس اور پریس ٹاکس کے علاوہ تقریباً ہر ٹی وی چینل کے ٹاک شوز میں بھی شرکت کررہے ہیں اور بڑی تندہی سے وزیراعظم اور اسکے اہل خانہ کا دفاع ذمہ دار ی کے ساتھ کررہے ہیں ۔
ادھر قطر کے بحران نے قطری شہزاد ے کے خط کو بھی مزید مشکوک بنا دیا ہے، الگ تھلگ قطر اور اس کا شاہی خاندان موجودہ بحران میں نواز شریف کی مدد کو نہیں آسکتا۔ شاید بزنس پارٹنر کی وجہ سے پہلے یہ ممکن ہوسکتا تھا لیکن موجودہ صورت حال میں یہ مشکل نظر آرہا ہے کہ قطری شہزادہ وزیراعظم پاکستان اور اس کے خاندان کی دفاع کے لئے سپریم کورٹ میں پیش ہوں ۔
بہر حال یہ ایک مشکل کام ہے کہ شاہی خاندان کا شہزادہ پاکستان کے سپریم کورٹ یا اس کی جے آئی ٹی کے سامنے تلخ سوالات کے جوابات دے تاکہ وزیراعظم کی گلو خلاصی ہو ۔ بقیہ معاملات میں بھی وزیراعظم اور اس کے خاندان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور وزراء کی فوج ظفر موج ان کی ناکام دفاع کرتی نظر آرہی ہے ۔
یہ بات طے ہے کہ اگر اس بار بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے حق میں آگیا تو ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور احتجاجی مظاہروں کا خطرہ رہے گا۔ غالباً عوام کا موڈ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ عوام مسلم لیگ کی حکومت سے بیزار ہیں اور ہر قیمت میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں امید ہے کہ 1999ء والی صورت حال کا سامنا نہیں ہوگا ۔
وزیراعظم اور اس کی کابینہ مستعفی ہوجائے گی اور نئی قومی حکومت قائم ہوگی جو نئے انتخابات اور حکومت سازی تک کام کرتی رہے گی ۔ قومی حکومت صرف اس لیے کہ پاکستان کے حالات غیر معمولی ہیں بھارت اور افغانستان روز بروز پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور مزید کشیدگی میں اضافہ کررہے ہیں ۔
ادھر خلیج میں ایک الگ طوفان کھڑا سر پر منڈ لا رہا ہے ایران قطر کی امداد کو پہنچ گیا ہے اور اس نے ساحل مکران کی دو بندر گاہوں‘ بندر لنگا اور بندر عباس قطر کے حوالے کیے ہیں جس کے ذریعے وہ بیرونی دنیا سے تجارت کر سکتا ہے اور اپنا تیل اور گیس دوسرے ممالک کو فروخت کر سکتا ہے ۔
اسی طرح سے ایران کی سرحد بھی مکمل طورپر محفوظ نظر نہیں آتی ، اس لیے چاروں طرف کشیدگی میں اضافہ کی صورت میں پاکستان کے لئے صرف اور صرف ایک ہی ذریعہ رہ جاتا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ ہو اور اس کی جگہ وسیع تر قومی اتحاد کی حکومت قائم کی جائے جو ملک میں انتخابات مناسب موقع پر کرائے اوراس کے بعد حکومت منتخب لوگوں کے حوالے کیا جائے چنانچہ دونوں صورتوں میں مسلم لیگ کی حکومت انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہے اور وہ بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھوتی نظر آرہی ہے ۔
شاید حکمران جماعت کے سنجیدہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ملک ایک خطر ناک دور سے گزر رہا ہے جو 1971ء کے بحران سے بھی زیادہ سنگین اور مشکل ہے ۔ ملک وزیراعظم کے کچن کابینہ کے افراد سے نہیں چلے گا اس کو وسیع تر مشاورت سے ہی چلایا جا سکتا ہے ۔
قومی اور بین الاقوامی معاملات کوسنبھالنے کیلئے دانش کی ضرورت ہے ۔ بعض حکمرانوں کو صرف اور صرف تجارت اور دولت کمانے میں دلچسپی ہے قومی اور بین الاقوامی امور کو منشی صاحبان کے حوالہ کیا گیا ہے جو پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے ۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تناؤ میں اضافہ
وقتِ اشاعت : June 11 – 2017