ghazan-marri

|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2017

کوئٹہ : نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے جلا وطن بلوچ قوم پرست رہنماء نوابزادہ گزین مری نے کہا ہے کہ میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس نے کبھی بھی بے گناہوں کے قتل کی ترغیب نہیں دی بلکہ بلوچستان میں بیٹھ کربلوچ عوام کے حقوق کی آواز بلند کی نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے راستے سال2008ء میں ہی الگ ہو چکے تھے ۔

ایسے لوگوں کے نظریات کا حامی نہیں جو آزادی کے نام پر بے گناہ بلوچوں کو آگ میں جھونک کر خود بیرون ملک بیٹھ کر اپنے لوگوں سے کٹ کر زندگی گزاریں قوم کا دکھ درد کا واویلہ کرنے والے اگر اتنے ہی سنجیدہ تھے تو بلوچستان میں ہی بیٹھ کر حقوق کی آواز کو بلند کرتے وطن واپس آکر عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کروں گا ۔

نواز حکومت اور اس کے آلہ کاروطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں جنگیز مری کا طرز سیاست علیحدہ ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں وطن واپسی کا فیصلہ اپنے لوگوں کے اصرار پر کیا ہے سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ مشاورت کے بعد کرونگا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ 18 سال بعد اپنی جلا وطنی ختم کر کے واپس آرہا ہوں سال 1999ء میں جسٹس نواز مری کے قتل کے بعد میرے خلاف بھی جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا ۔

اس دوران اپنے والد سے رابطہ کیا اور ان کے کہنے پر ہی ملک چھوڑ کر جلا وطنی کی زندگی گزاری کئی مرتبہ وطن واپس آنے کا ارادہ کیا مگر والد کے منع کرنے پر نہ آسکا حکمرانوں کی جانب سے والد کی حیات کے دوران وطن واپسی پر اصرار کیا جاتا رہا تاہم والد کی وفات کے بعد جب بھی وطن واپس آنے کا ارادہ کیا۔

نواز حکومت اور اس کے آلہ کاروں نے وطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان حربوں سے نہ تو خوف زدہ ہو اور نہ ہی پریشان میرے خلاف جو بھی مقدمات ہیں ان کا عدالتوں میں سامنا کروں گا ۔

انہوں نے کہا کہ بڑے بھائی جنگیز مری سے کوئی سروکار نہیں ان کا نظریہ اور سیاست سب کچھ الگ ہے جس سے میرا کوئی تعلق نہیں انہیں جس طرح سے نواب بنایا گیایہ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے میں اپنے والد نواب خیر بخش مری کا پیروکار ہو ں جنہوں نے نہ ہی منافقت کی اور نہ ہی بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی۔

نواب خیر بخش مری نے اغواء برائے تاوان نہتوں پر وار کرنے اور طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو نشانہ بنانے والوں سے کنارہ کشی اختیار کی وہ نیب کے دور میں بھی اپنے نظریات پر ڈٹے رہے ۔

انہوں نے کبھی کسی آبادکار،حجام ،ریڑھی بان،مزدور کو قتل کرنے والوں کی حمایت نہیں کی میں بھی اپنے والد کے انہی نظریات کا حامی ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ حقوق لینے کے دعویدار طاقتور سے لڑنے کی بجائے اس نہتے کو نشانہ بناتے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کما نے کی جدوجہد کر رہا ہے کچھ بھٹکے ہوئے لوگ نواب خیر بخش مری کی سیاست سے ہٹ کربلوچ قوم سے متعلق منفی تاثر عالمی دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو بلوچ قوم کی خدمت اور نواب خیر بخش مری کے افکار کے منافی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بی ایل اے اگر زیادتی کرتی رہی تو ریاستی اداروں نے بھی کوئی کمی نہ کی انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواب خیر بخش مری اور حیر بیار مری کے راستے 2008ء میں ہی علیحدہ ہو گئے تھے نواب خیر بخش مری نے بلوچستان میں رہ کر ہی بلوچ قوم کے حقوق کی بات کی اور آخر دم تک اپنی سرزمین پر رہتے ہوئے ہی جدوجہد کو جاری رکھا ان لوگوں کے نظریات کا کبھی بھی حامی نہیں رہا جو بیرون ملک بیٹھ کرآزادی کے نام پر بے گناہ بلوچوں کو مروارہے ہیں اگر وہ قوم کا دکھ اور درد اور محسوس کرتے ہیں تو یہاں بیٹھ کر آواز بلند کریں ۔

سی پیک اور گوادر منصوبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب تک مقامی لوگوں کو اسٹیک ہولڈر نہیں بنایا جاتا اس وقت تک بلوچ کسی بھی ترقی کا حصہ نہیں بن سکتا میں جس سرزمین پر بیٹھا ہوں وہاں پر مقامی لوگوں کے حقوق کا جس طرح سے خیال رکھا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی یہاں پر نہ تو دہشت گردی ہے اور نہ ہی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے بلکہ عام آدمی بھی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو رہا ہے ۔

گوادر اور بلوچستان کے عوام کو جب تک براہ راست ترقی میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تمام میگا پروجیکٹس بے سود ہونگے انہوں نے کہا کہ تبدیلی صرف نعروں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے سے آتی ہے بلوچستان کے حکمران عوام کے منتخب کردہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لائے ہوئے لوگ ہیں ۔

انہیں بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں یہ صرف اور صرف اپنے مفادات اور ان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں جو ان کو لاتے ہیں جب تک بلوچستان میں شفاف انتخابات کے ذریعے لوگوں کو منتخب نہیں کیا جاتااس وقت تک مسائل حل نہیں ہونگے ۔

بلوچستان میں ماروائے آئین و قانون لوگوں کا قتل اور اغواء نے مسائل کو مزید گھمبیر بنادیا اگر ایک طرف علیحدگی پسندوں کی جانب سے ظلم کئے گئے تو ریاستی مظالم بھی کم نہ تھے جس نے آج حالات کو اس نہج تک پہنچایاہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ آج بھی بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے طاقت اور بندوق کے ذریعے مسئلے بگڑتے ہیں بلوچ اگر اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو بیٹھ کر یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔

اگر نیت صاف ہو تو پہلے دن سے بلوچ کو عزت دار ملتی تو آج حالات اس نہج پر نہ پہنچتے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھپوں کے ذریعے بلوچستان میں حکمران لانے کی ضرورت محسوس ہوتی انہوں نے کہا کہ میرے خلاف بننے والے مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں ۔

اگر کوئی جے آئی ٹی بنتی تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن میں کسی سے کوئی ریلیف نہیں مانگتا اور نہ ہی کسی قوت کے اشارے پر کام کرنے کیلئے تیار ہوں میرے مستقبل کا فیصلہ میری قوم کرے گی آج تک بیرون ملک بیٹھ کر کبھی کسی کیلئے کرائے کے قاتل کے طورپر کام نہیں کیا اور نہ ہی بیرون ملک سے کوئی فنڈنگ لی اب بھی اگر بلوچ کی بات کرونگا تو اپنی سرزمین پر بیٹھ کروں گا ۔

بیرونی قوتوں کے اشارے پر اپنے لوگوں کو مارنے کا کام نہیں کرسکتا ایسی طرز سیاست کا حامی نہیں ہوں کہ بیرون ملک بیٹھ کر بلوچستان سے بھتے وصول کروں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرو اور جن کے ذریعے قتل کرواتا ان کے مرنے پر صرف اتنا بیان دیتا کہ یہ سرزمین کی آزادی کیلئے شہید ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ موقع پرستی اور منفی سیاست کی بجائے حق و سچ کی سیاست کاحامی ہوں بلوچستان مری‘ بگٹی‘ مگسی ‘جمالی یا مینگل کی میراث نہیں بلکہ یہ تمام قوموں کا مشترکہ صوبہ ہے لہٰذا اکیلا کچھ بھی نہیں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا کس سیاسی جماعت کا حصہ بنوں گا یہ بلوچستان کی سرزمین پر بیٹھ کر اپنے لوگوں کی مشاورت سے فیصلہ کرونگا۔