|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2017

چین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کردی۔

افغان اشاعتی ادارے ‘طلوع نیوز’ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی جلد ہی کابل کا دورہ کریں گے، جہاں وہ پاک-افغان تعلقات میں بہتری کے حوالے سے افغانستان کے حکام سے ملاقات کریں گے۔

مزید کہا گیا کہ چینی وزیر خارجہ ان ملاقاتوں کے دوران چار فریقی کورآڈینیشن کمیٹی کے ارکان یعنی افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین کے درمیان ملاقات کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

اپنے بیان میں اشرف غنی کا کہنا تھا، ‘یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چین افغان امن عمل میں بطور ثالث کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور جلد ہی چینی وزیر خارجہ کابل کا دورہ کریں گے، پاکستان کے ساتھ امن ہمارا مطالبہ تھا اور اسے حکومتوں کے درمیان حل ہونا چاہیے’۔

واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب 31 مئی کو کابل میں ہونے والے ٹرک بم دھماکے کے نتیجے میں 150 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔

افغان طالبان سمیت کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

کابل دھماکے کے فوری بعد افغان حکام نے اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی تھی تاہم اسلام آباد نے ان الزامات کی تردید کردی۔

دونوں ہی ممالک ماضی میں اپنی حدود میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے آئے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ افغان طالبان نے رواں سال کے آغاز میں اپنے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔

دوسری جانب شدت پسند تنظیم داعش بھی یہاں قدم جمانے میں مصروف ہے۔

دسمبر 2014 میں افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا انخلاء ہوا تھا تاہم یہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے امریکی اور نیٹو کی کچھ فورسز کو تعینات رکھا گیا۔

اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔