وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف جمعرات کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے ۔ اس کے لئے ان کو سمن جاری کردئیے گئے ہیں کہ وہ پندرہ جون کو پیش ہوں اور اپنے ساتھ تمام متعلقہ دستاویزات بھی لائیں ۔
اس سے قبل ان کے بڑے بیٹے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پانچ بار پیش ہوئے اور ان کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز دو بار پیش ہوئے اور ان دونوں نے متعلقہ سوالات کے جوابات بھی دئیے۔
اس کے علاوہ نیشنل بنک آف پاکستان کے صدر بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور مشکل سوالات کا سامنا کیا ۔ بعد میں انہوں نے سپریم کورٹ میں شکایت کی کہ ان کو ہراساں کیا گیا ۔ البتہ وزیراعظم پاکستان بھی زیادہ مشکل سوالات کا سامنا کریں گے جب وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے ۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سرکاری اہلکاروں کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے اور اپنی دفاع کے بجائے سیاسی طورپر کہیں یہ بہتر تھا کہ نواز شریف استعفیٰ دے دیتے اور کسی سینئر آدمی کو پارلیمانی پارٹی کا لیڈر بناتے تو اس سے ان کے وقار میں اضافہ ہوتا کیونکہ اب افسران کے سامنے پیش ہو کر وہ سبکی محسوس کریں گے کہ وہ ملک کے قانونی طورپر منتظم اعلیٰ ہیں اور ان پر منی لانڈرنگ کے علاوہ غیرقانونی طورپر جائیدادیں بنانے اور سرکاری حیثیت کو غلط طور پر استعمال میں لانے کے الزامات ہیں ۔
موصوف جے آئی ٹی کے سامنے جوابدہ ہیں اگر وہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوتے تو بات اور تھی۔ صرف اور صرف اقتدار کو گلے لگائے رکھنے کے لئے ہر وہ کام کرنے کو تیار معلوم ہوتے ہیں جو کسی ملک کے وزیراعظم کے شایان شان نہیں ۔
ہماری سیاست میں اقتدار کو زیادہ عزت اور شرف حاصل ہوتا ہے اور اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اس کو ذلت کے ساتھ رد کردیا جاتا ہے اصل چیز دولت اور اقتدار ہے اس کو قابو میں رکھنا ہی اصل مقصد ہے ۔