|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2017

گزشتہ روز نیشنل پارٹی کے وزرء ا اور اراکین اسمبلی نے اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا جب پی ایم اے پی کے رکن نے خالد لانگو کے خلاف نازیبا الفاظ کیے ۔ سرکاری بنچوں سے رکن صوبائی اسمبلی خالد لانگو نے بجٹ کے بعض حصوں پر اعتراضات اٹھائے اور کہا کہ قلعہ عبداللہ جو وزیر منصوبہ بندی اورترقیات کے وزیر کا مسکن ہے،کے لیے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور باقی علاقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جن میں ان کا ضلع اور حلقہ انتخاب قلات بھی شامل ہے۔

لورالائی کالج کے لئے 65کروڑ اور قلات کالج کے لئے صرف بیس کروڑ ۔ ان اعدادو شمار کو اسمبلی فلور پر پیش کرنے پر پی ایم اے پی کے بعض اراکین اشتعال میں آگئے اور ایوان میں زبردست شورو غوغا شروع ہوگیا اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

اس پر اسپیکر راحیلہ درانی نے اراکین کے مائیک بند کرادئیے، اس دوران وزیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے خالد لانگو کا دفاع کیا اور انہوں نے اے سی ایس کو نشانہ بنایا کہ بجٹ میں صرف تین تھانوں کے لئے انہوں نے خطیر رقم رکھوائی ہے جس سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک افسر وزراء سے زیادہ طاقتور ہے۔

اسی دوران لیاقت آغا کے ریمارکس پر نیشنل پارٹی کے وزراء اور اراکین اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا ۔بعد میں وزراء اور اراکین اسمبلی نے باہر جا کر ان کو ایوان میں واپس لائے اور اس موقع پر زیارتوال نے لیاقت آغا کی جانب سے معذرت کی ۔اس کے بعد وزیراعلیٰ نے ایوان میں پیش آنے والے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اراکین کو برداشت اورتحمل کا مظاہرہ کرنا چائیے۔

دیکھا جائے تو وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہمیشہ متنازعہ رہا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ بلوچ اپنے ہی وطن میں یہ شکایت کررہا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ طاقتور نوکر شاہی احکامات چلا رہی ہے ایک کالج کو 65کروڑ اور بلوچ علاقے کے کالج کو صرف بیس کروڑ دئیے جاتے ہیں۔

اس سے قبل وزیر تعلیم صوبہ بھر میں مختلف اوقات میں زیر بحث رہے ہیں اور ان پر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے گئے اور ان کو اپنی صفائی بلوچی زبان کے چینل پر کرنا پڑی حالانکہ ان کے بیان کی ویڈیو موجود ہے اور وہ سب کچھ اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ یہ بلوچستان ہے یہ بلوچوں کی سرزمین ہے یہاں کے وسائل پر پہلا حق بلوچوں کا ہے کسی دوسرے کا نہیں ۔ بلوچوں کو اس پر کبھی اعتراض نہیں رہا کہ دوسرے علاقوں کو ضرورت کے مطابق فنڈ نہ دیں۔

بلوچوں نے افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچ سرزمین کا کبھی حصہ تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی بلوچ پارٹیاں ان علاقوں میں ووٹ مانگنے گئے ، اس لیے ان کے لئے الگ بجٹ ہونا چائیے، بلوچ عوام کے وسائل ان علاقوں پر خرچ نہیں ہونے چاہئیں جو تاریخ طورپر بلوچ سرزمین کا کبھی حصہ نہیں رہے ۔ اس لیے بجٹ پر نظر ثانی کی جائے طاقت کے بل بوتے پر بلوچوں کے جائز حقوق غصب نہ کیے جائیں اور نہ ہی ان کو پامال کیاجائے۔

ہم اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ہر شخص اور خطے کو اس کا حق دیا جائے۔ گزشتہ دنوں اے سی ایس اور وزیر داخلہ کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں وزیر داخلہ نے بھرے اجلاس میں یہ دعویٰ کیا کہ بگٹی قبائلی علاقے کے اسکیم بجٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔

ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ سرزمین کا ہے اور وزیراعلیٰ ان عناصر کی سرکوبی کریں جو بلوچ سرزمین اور اس کے باشندوں کے جائز حقوق کو پامال کررہے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت میں کچھ لوگوں کوزیادہ ہی طاقتور بنادیا گیا ہے ۔

وزیراعلیٰ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اور اپنے اتحادیوں کو مجبور کریں کہ وہ انصاف پر مبنی فیصلے کریں تاکہ بعد میں ان کو پشیمان نہ ہونا پڑے ۔تاہم اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچستان سے نکال کر فاٹا میں ضم کیاجائے کیونکہ ہمارے پختونخوا کے دوستوں نے فاٹا کی صوبہ کے پی کے میں انضمام کی مخالفت کی تھی بلکہ ایک متحدہ پختون صوبے کی مخالفت کی تھی اس لیے بلوچستان کے ان علاقوں کو جو بلوچ سرزمین کا حصہ نہیں رہے ہیں ۔

ان کو فاٹا کی ایک اور یجنسی بنائی جائے بلکہ ہم بلوچ عوام کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو مجبور کریں کہ وہ اس ایجنڈے پر کام کریں کہ افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچ سرزمین سے الگ کیاجائے، ان کی بلوچستان اسمبلی اوروفاقی پارلیمان کی نمائندگی بلوچستان سے ختم کی جائے اور ان کو فاٹا کی طرف سے وفاق اور وفاقی پارلیمان میں حصہ دیا جائے ، یہی واحدحل ہے ۔