|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے آئندہ مالی سال کیلئے تین کھرب چھبیس ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دیدی۔ بجٹ پر بحث کے دوران حکومتی ارکان اسمبلی نے بلوچستان کے حصے کے فنڈز جاری نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں بلوچستان کے پرانے منصوبے شامل کرکے دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔

سی پیک اور دیگر منصوبوں میں بلوچستان کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیرخزانہ سردار اسلم بزنجو نے اگلے مالی سال کے لئے کل58مطالبات زرپیش کئے جن میں 2 کھرب 40 ارب 36 کروڑ2 لاکھ14 ہزار902مالیت پر مشتمل 49مطالبات غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ 86ہزار11لاکھ پر مشتمل 9مطالبات زر ترقیاتی اخراجات سے متعلق تھے۔

اس موقع پر کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی جس کے بعد ایوان نے متفقہ طو رپر مطالبات کی منظوری دی۔ صوبائی وزیر سردار اسلم بزنجونے الگ مطالبات زر پیش کرتے ہوئے کہ14ارب5کروڑ31لاکھ 63 ہزار5سو64روپے وزیراعلیٰ کو ان اخراجات کی کفالت کے لئے عطا کی جائے جو مالی سال کے اختتام30جون2018ء کے دوران بسلسلہ مد عمومی انتظامیہ ، مالیاتی انتظام اور معاشی قوانین ، شماریات تشہیر و اطلاعات وغیرہ برداشت کرنے پڑیں گے۔

80کروڑ74لاکھ13ہزار7سو روپے صوبائی آبکاری ،4کروڑ 40لاکھ 93ہزارروپے بسلسلہ اسٹامپس،15ارب روپے برائے پنشن،ایک ارب60کروڑ89لاکھ95ہزار3سو روپے بسلسلہ مد عدالتی نظم و نسق،34کروڑ49لاکھ24ہزار7سوروپے قانونی خدمات وشعبہ قانونی امور ،14کروڑ89لاکھ21ہزار 2سو روپے بسلسلہ مد محکمہ صوبائی محتسب، 28کروڑ 85لاکھ 41ہزار8 سو روپے محکمہ پراسیکیوشن،16ارب38کروڑ97لاکھ54ہزار8سو22روپے بلوچستان پولیس، 4ارب 55کروڑ 53لاکھ75ہزار90روپے بلوچستان کانسٹیبلری،8ارب7کروڑ90لاکھ47ہزار4سو روپے برائے لیویز، 83کروڑ 38لاکھ13ہزار2سو روپے جیل قید و بند مقامات،11کروڑ28لاکھ84ہزار9سو روپے بسلسلہ شہری دفاع،8 ارب 70 کروڑ 56لاکھ8ہزار5سو روپے سول ورکس بشمول اسٹیبلشمنٹ چارج،3ارب70کروڑ54لاکھ10ہزار9سو80روپے صحت عامہ کی خدمات،1ارب20کروڑ53لاکھ43ہزار8سو روپے ورکس اربن کیو واسا،7ارب77کروڑ95لاکھ65ہزار روپے اعلیٰ تعلیم ،35ارب7کروڑ6لاکھ41ہزارروپے ثانوی تعلیم ،22کروڑ61لاکھ97ہزار7سو روپے آثار قدیمہ ،18ارب30کروڑ65لاکھ90ہزار4سو روپے صحت ،2ارب77کروڑ75لاکھ88ہزار روپے طبی تعلیم ،85کروڑ89لاکھ30ہزار6سو40روپے بہبود آبادی ،ایک ارب26کروڑ39لاکھ67ہزار روپے محنت و افرادی قوت کے نظم و نسق،73کروڑ92لاکھ74ہزار ایک سو60روپے کھیلوں کے انتظام و تفریحی سہولیات،17کروڑ82لاکھ24ہزار7سو روپے ثقافتی خدمات،98کروڑ22لاکھ60ہزار روپے سماجی تحفظ و سماجی خدمات،3ارب 9کروڑ50لاکھ روپے قدرتی و دیگرآفات(امداد)،66کروڑ24لاکھ50ہزارروپے مذہبی و اقلیتی امور،42کروڑ75لاکھ روپے خوراک،8ارب28کروڑ85لاکھ77ہزار3سو 28روپے زراعت،33کروڑ42لاکھ50ہزارروپے محصولات اراضی،3ارب88کروڑ86لاکھ59ہزار3سو10روپے امور حیوانات،ایک ارب11کروڑ70لاکھ 85ہزار4سو روپے جنگلات،88کروڑ51لاکھ15ہزار روپے ماہی گیری ،12کروڑ68لاکھ84ہزار7سو روپے امداد باہمی،2ارب53کروڑ50لاکھ61ہزار ایک سو88روپے آبپاشی،12ارب57کروڑ89لاکھ72ہزار8سو روپے دیہی ترقی،ایک ارب21کروڑ39لاکھ43ہزار1سوروپے صنعت،10کروڑ95لاکھ43ہزار7سو روپے سٹیشنری و طباعت،ایک ارب77کروڑ34لاکھ48ہزار روپے معدنی وسائل(سائنسی شعبہ)8کروڑ12لاکھ32ہزار روپے شعبہ ٹرانسپورٹ،11کروڑ16لاکھ57ہزار روپے محکمہ ترقی نسواں ،14ارب36کروڑ26لاکھ72ہزار8سو68روپے شعبہ توانائی،28کروڑ25لاکھ35ہزار روپے محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ،42کروڑ47لاکھ38ہزار2سو روپے محکمہ نگرانی ماحولیات،15ارب روپے سرمایہ کاری ،ایک ارب80کروڑ98لاکھ64ہزار3سو 20روپے قرضہ جاتی خدمات و دیگر ذمہ داریوں ،21ارب 1کروڑ34لاکھ95ہزار روپے سرکاری قرضہ کی انجام دہی جبکہ6ارب17کروڑ10لاکھ روپے وزیراعلیٰ کو ان اخراجات کی کفالت کے لئے عطاء کی جائے جو مالی سال کے اختتام 30جون2018ء کے دوران بسلسلہ مد ریاستی تجارت برداشت کرنے پڑیں گے۔

وزیرخزانہ نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں کل 9الگ الگ مطالبات زر پیش کرتے ہوئے کہا کہ 14ارب77کروڑ27لاکھ12ہزار روپے عمومی عوامی خدمات،ایک ارب87کروڑ44لاکھ73ہزار روپے امن وامان و حفاظتی امور ،33ارب 8کروڑ62لاکھ54ہزار روپے اقتصادی امور،6ارب78کروڑ76لاکھ42ہزار روپے ماحولیاتی تحفظ،8ارب93کروڑ26لاکھ21ہزارروپے رہائشی و کمیونٹی سہولیات،6ارب1کروڑ31لاکھ58ہزارروپے صحت ،3ارب38کروڑ84لاکھ81ہزار روپے تفریحی ثقافت و مذہب ،9ارب55کروڑ69لاکھ71ہزار روپے تعلیمی امور و خدمات اور 1ارب58کروڑ88لاکھ58ہزارروپے ان اخراجات کی کفالت کے لئے عطاء کی جائے جو مالی سال کے اختتام30جون2018ء کے دوران سماجی تحفظ کی مد میں برداشت کرنے پڑیں گے۔

اسپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے عام بحث کے اختتام پر کہا کہ اکثر اراکین نے بجٹ کو متوازن اور مثبت قرار دیا ہے جو خ46ش آئند ہے اپوزیشن نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جنہیں وزیراعلیٰ نے دور کرنے کی یقین دہانی کرائی خواتین اراکین نے بھی عام بحث میں نہ صرف بھرپور حصہ لیا بلکہ سیر حاصل بحث بھی کی اور تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبوں کے لئے جو تجاویز دیں اس پر انہیں مبارکباد دیتی ہوں ۔

آئندہ مالی سال کا بجٹ صوبے کی ترقی کا باعث بنے گا پی ایس ڈی پی میں جو منصوبے شامل کئے گئے ہیں وہ خوش آئند ہیں جس پر وزیراعلیٰ اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جمہوریت کا حسن تنقید برائے اصلاح ہے اور میں وزیراعلیٰ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ انہوں نے تمام اراکین کی باتیں اور ان کی تنقید کو انتہائی صبرو تحمل سے سنا اور تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔

انہوں نے وزیراعلیٰ ، تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈرز، صوبائی وزراء ، مشیروں ارکان اسمبلی اور بجٹ سازی میں حصہ لینے والے تمام افسران و اہلکاروں کو مبارکباد دی ۔صوبائی وزیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ جب بلوچستان مغربی پاکستان کا حصہ تھا اس دن سے لے کر آج تک ہمارے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے ۔

ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد جب بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو اس کی آمدنی سے کراچی اور اسلام آباد کو بنایا گیا مگر بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں این ایف سی ایوارڈ کا اجراء ہوا آج ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ ہم صوبے کو ترقی دے رہے ہیں صوبے کو ماضی میں نظر اندا زکیاگیا تھا ۔

وفاق ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہا اور ہمارے روزگار کا سارا دارومدار حکومت پر ہے خسارے کا بجٹ پیش کرنا اچھی بات نہیں لیکن ہماری مجبوری ہیں، صوبے میں انڈسٹریز نہ ہونے کی وجہ سے روزگار کیلئے سرکاری نوکریوں پر انحصار کرنا پڑٹا ہے ، ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے خسارے کا بجٹ پیش کیا۔

انہوں نے کہ اکہ تلخیاں اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ یہاں پر وسائل کی تقسیم صحیح معنوں میں نہیں کی جاتی اس سال ہم اچھے کام کرکے انتخابات میں جائیں گے تاکہ عوام کو منہ دکھا سکیں ۔بجٹ پر حکومت اور اپوزیشن کے اعتراضات ہیں جو غلطیاں ہوئی ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان ان تمام تر تحفظات اور غلطیوں کو ٹھیک کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ریکوڈک بلوچستان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہے ، یہ معاملہ عالمی عدالت میں ہے ،ریکوڈک پر کام کریں تو ہم دوسرے صوبوں سے زیادہ ترقی کریں گے ۔وفاقی حکومت سے خسارہ پور ا کرنے کی کوئی امید نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں بلوچستان پر احسان کرکے 23ارب روپے سے زائد کا قرضہ ادا کیا ۔

بلوچستان میں کافی وسائل ہیں لیکن اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ ہم دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان بینک بنارہے ہیں جس میں ہم اپنی رقم رکھیں گے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی اور ملکی حالات ہمارے سامنے ہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ یمن کے معاملے پر ہم غیر جانبدار رہیں گے لیکن ہم غیر جانبدارنہیں رہے ایران اور سعودی عرب کے معاملات میں ہمیں غیر جانبدار رہنا ہوگا اور عقل کے ناخن لینے ہوں گے ۔

ملکی حالات پر تھنک ٹینک بیٹھ کر فیصلوں پر نظر ثانی کریں افغانستان میں آج بھی مداخلت جاری ہے اور مداخلت بند کئے بغیر نہ ہم پرامن رہ سکتے ہیں نہ وہ پرامن رہ سکتے ہیں افغانستان ایران کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے افغانستان کے صدر نے تمام صورتحال کو بالا طاق رکھ کر پاکستان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے وہ موقع ضائع کردیا ۔

داخلہ و خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اورتمام اسلامی ممالک کو حالات کا سنجیدگی سے مظاہرہ کرنا ہوگا اور ملک میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور حکومت حالات کو مد نظر رکھ کر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور یہاں مختلف اکائیاں وجود رکھتی ہیں بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے ۔

وفاق کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں وفاقی پی ایس ڈی پی میں 60سے70ارب روپے ہیں لیکن ہمیں بمشکل 30ارب روپے بھی نہیں دیئے جاتے پچھلے سال بلوچستان کے ایک ڈیم کے لئے 3ارب روپے مختص کئے گئے لیکن بعد میں اس میں 1ارب40کروڑ کی کٹوتی کی گئی۔

ہمارے30میں سے صرف2سکیمات وفاقی پی ایس ڈی پی میں ڈالی گئیں اور اب اس سال پرانی سکیمات کو دوبارہ شامل کرکے کہا گیا کہ ہم بلوچستان کے لئے بہت کچھ کررہے ہیں اس طرح مرکز ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا وزیراعلیٰ کی قیادت میں ہم وفاق کے سامنے اپنا کیس پیش کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ چھ ماہ سے ہمارے منصوبوں کے پی سی ون پڑے ہوئے ہیں لیکن وفاقی وزیر احسن اقبال بلوچستان کی تمام سکیمات پر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اٹھارہویں ترمیم پر عملدرآمد نہ تو پیپلزپارٹی کی سابق حکومت اور نہ ہی موجودہ حکومت میں عملدرآمد ہوا ہے فیڈرل سروسز اور گیس کمپنیوں میں بلوچستان کو شیئرز نہیں دیئے جارہے ۔

اس مد میں وفاق ہمارا مقروض ہے مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ نہیں بنایا جارہا جس کی وجہ سے ہماری باتیں ریکارڈپر ہی نہیں آرہیں انہوں نے کہا کہ حب ڈیم سے کراچی کو پانی فراہم کیا جارہا ہے اس مد میں سندھ حکومت پر ہمارے 50ارب سے زائد کے بقایہ جات ہیں ۔

وزیراعلیٰ نے سندھ حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے پانی ہمارا ہے اس کے بقایہ جات کی ادائیگی ہمیں ہونی چاہئے ان چیزوں پر ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے چار محکموں کے علاوہ باقی تمام محکمے صوبوں کو منتقل ہونے چاہئیں جس پر عملدرآمد سے وفاق مضبوط ہوگا ورنہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔

وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر حکومت کی پالیسی کی عکاس ہے جس میں حکومتی ترجیحات کی بہترین ترجمانی کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ پلڈاٹ اور دیگر معتبر اداروں کے سروے کے مطابق بلوچستان بعض چیزوں میں سندھ خیبرپشتونخوا اور حتیٰ کہ پنجاب سے بھی آگے چلا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجلی کی ترسیل کے استعداد میں اضافہ کیا ہے دادو خضدار اور لورالائی ڈی جی خان ٹرانسمیشن لائنوں کی تکمیل کے بعد بلوچستان کی استعداد چھ سو میگاواٹ سے بڑھ کر 1330میگاواٹ ہوگئی ہے ژوب چشمہ ٹرانسمیشن لائن کی ٹینڈرنگ بھی ہوگئی ہے جس کی تکمیل سے صوبے کی توانائی کی ضروریات پوری ہوجائیں گی۔

دادو خضدار اور لورالائی ڈی جی خان لائن کو کوئٹہ تک توسیع دینے کے لئے 8ارب روپے رکھے گئے ہیں پشین میں سو میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ لگارہے ہیں امن وامان کی بہتری سے آج سرمایہ دار بلوچستان آرہے ہیں سی پیک گیم چینجر ہے جس سے سیاسی صورتحال بھی بہتر ہوسکتی ہے ۔وزیراعلیٰ کی کوششوں سے بلوچستان کے بعض منصوبے سی پیک میں شامل ہوئے ہیں جن پر عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔

بلوچستان کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی ،سرینڈر اور ایکسس کے معاملات پچھلے چیف سیکرٹری اپنے گھر سے چلا رہے تھے بجٹ کے دنوں میں ان سے رابطہ نہیں ہورہا تھا میں نے پری بجٹ سیمینار میں اس حوالے سے وضاحت کردی تھی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ساتھ خالد لانگو جیسا معاملہ ہو۔

اس حکومت سے پہلے کیوڈی اے کاپہلے کوئی نام و نشان نہیں تھا بی ڈی اے بدنام ترین ادارہ تھا جس کے افسران جیل میں تھے لیکن ہمارے چار سالہ دور میں کسی نے انگلی تک نہیں اٹھائی ۔بی ڈی اے کی جاری سکیمیں اب بھی اربوں روپے کی ہیںیہ سب جمعیت العلماء اسلام کا کمال ہے سابقہ دور میں پی ایس ڈی پی نتیجہ خیز نہیں تھی ۔

انہوں نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں صحت کے شعبے پر خاطرخواہ توجہ دینے کو خوش آئند قرار دیا۔سابقہ دور حکومت میں ڈیم بنانے سے تین سو کلومیٹر پائپ لائنیں بچھائی گئیں ۔

سردار رضا محمد بڑیچ نے کہا کہ موجودہ بجٹ متوازن بجٹ ہے ترقی کا سٹرکچر کھڑا کردیا گیا ہے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بات کروں گا بلوچستان کی حالت باقی صوبوں کی نسبت زیادہ خراب ہے یہاں پر روزگار کے مواقع انتہائی کم ہیں بجٹ بناتے ہیں مگر بجٹ میں ہدف نہیں رکھا جاتا اور اب ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے پانچ سالوں کے لئے ایک ہدف مقرر کریں تاکہ ہمارے لئے مستقبل میں آسانیاں پیدا ہوں ۔

اب تک 13لاکھ بچے سکولوں میں اور18لاکھ سکول جانے سے قاصر ہیں اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ہر بچے کو سکول میں داخل کرنا ہوگاجب بچوں کو سکول میں داخل نہیں کریں گے تو ترقیاتی بجٹ اس سے بھی کم ہوگا۔

اپوزیشن رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بات کروں گا پچھلے پانچ سالوں میں ہمارے حلقہ انتخاب کے ساتھ جو زیادتی اور کارروائی ہوئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور جن لوگوں کے میرے اوپر احسانات ہیں وہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں بجٹ بنانا اتنا بڑا کارنامہ بجٹ کے چند اعدادوشمار ہوتے ہیں ۔

اس صدی کے بلکہ بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا تاریخی بجٹ ہے جس پر قائد ایوان کو مبارکباد دیتا ہوں میرا حلقہ انتخاب 32اضلاع میں سرفہرست ہے جس میں آن گوئنگ سکیمات بہت کم ہیں 35کرروڑ90لاکھ جاری اسکیمات میں8کروڑ26لاکھ روپے جاری کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہر دور حکومت میں ہر ایک نے اپنے حلقہ انتخاب کو ترجیح دی ہے سابق وزیراعلیٰ کے ڈھائی سالہ دور میں تربت سٹی کے لئے اربوں روپے جاری کئے گئے پی اینڈ ڈی کے وزیر اور ایڈیشنل سیکرٹری کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے علاقے کی خدمت کی جو اپنے علاقے کی خدمت نہ کرسکے وہ نااہل ہے اپوزیشن بھی منتخب ہو کر آتی ہے ۔

اپوزیشن کو ہر حوالے سے نظر انداز کیاگیا ہے اور خاص کر مجھے 2013ء سے 2016ء تک نظر انداز کیاگیا اور غیر منتخب نمائندے کو ترجیح دے کر 75کروڑ روپے دیئے گئے انہوں نے کہا کہ ضلع کیچ میں 7ارب روپے جاری سکیمات کے لئے جارہے ہیں جن میں ایک ارب روپے ریلیز کئے گئے ہیں قلعہ عبداللہ میں جاری سکیمات کے لئے10ارب 34کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

ایک ارب34کروڑ روپے ریلیز کئے گئے قلعہ سیف اللہ کے لئے 14ارب روپے کے جاری سکیمات ہیں جن کے لئے1ارب 17کروڑ،ژوب کے لئے7ارب30کروڑاور ریلیز کی گئی رقم ایک ارب4کروڑ ، بارکھان کے لئے جاری سکیمات کے لئے35کروڑ95لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 8کروڑ روپے ریلیز کئے گئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے ہر موقع پر ہمارے ساتھ اچھائی کی اور ان کے احسانات کو کبھی بھی نہیں بھلاسکتا وہ شہیدوں کا باپ ہے ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر نواب محمدخان شاہوانی نے کہا کہ ہر بجٹ میں تحفظات اور کمی آتی جاتی ہے ساتھیوں کی جانب سے بھی ایسی کچھ باتیں سنی گئیں جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے جو رہ جاتے ہیں وہ ناراض ہوتے ہیں اور پھر واویلا کرتے ہیں آہستہ آہستہ تبدیلی آتی رہتی ہے ہر حکومت جانے کے بعد دوسری حکومت میں تبدیلی نظر آتی ہے آہستہ آہستہ یہ صوبہ ترقی کرے گا ۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے حکومت عوام اور فورسز کے تعاون سے صوبے میں حالات بہتر ہوئے پچھلی حکومت میں ہمارے حلقہ انتخاب کے دو یونین کونسل کے لئے چھ ارب روپے جاری کئے ہر حکومت میں زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان زیادتیوں کے خاتمے کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اگلے مالی سال کے بجٹ پر عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کے دوران ارکان کی جانب سے تنقید بھی ہوئی تنقید کرنے والوں کو صوبے کے حالات حقائق اور وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کرنی چاہئے 2013ء میں جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو امن وامان کی صورتحال تباہ کن تھی مگر آج امن وامان کی صورتحال بہت بہتر ہے جس کا کریڈٹ حکومت اور فورسز کو جاتا ہے ۔

محکمہ صحت کے حوالے سے ملنے والی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں ہیلتھ انفارمیشن سسٹم شروع کیا گیا ہے عید کے بعد تربت اور خضدار میڈیکل کالجز میں کلاسز شروع ہوجائیں گی 2013ء سے پہلے امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ڈونرز یہاں آنے سے کتراتے تھے ماضی میں ویکسین ضائع ہوجاتی تھیں مگر ہم نے ان کو محفوظ کرنے کے لئے تمام تر اقدامات کئے ۔

پولیو پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے ویکسینیٹرز میں آٹھ سو موٹرسائیکلیں تقسیم کی گئیں سات ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کردیاگیا ہے تمام اضلاع کو ایمبولینس فراہم کردیئے گئے ہیں ماضی میں صرف ایک شہر میں ڈائیلاسز ہوتے تھے جبکہ اب یہ سہولت دس اضلاع میں موجود ہے ہیپا ٹائٹس ایچ آئی وی سمیت تمام کنٹرول پروگرام فعال کردیئے گئے ہیں ۔

عید کے بعد ہر ضلع میں ہیپا ٹائٹس کے مریضوں کی سکریننگ اور علاج معالجے کا سلسلہ شروع کردیاجائے گا صوبے میں پہلی مرتبہ ریجنل بلڈ سینٹر قائم کردیاگیا ہے جہاں پچاس ہزار بیگز رکھنے کی سہولت ہے بارہ سال بعد شیخ زید ہسپتال کو فعال کردیاگیا ۔اسمبلی اجلاس جمعرات تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کوئٹہ میں خواتین کیلئے میڈیکل کالج کی تعمیر سمیت دیگر منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے بہترین بجٹ پیش کیا ہے ، صحت، تعلیم، امن وامان اور مواصلات کے شعبوں پر خاص توجہ دی ہے ۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ بہادری سے لڑرہے ہیں، وکلاء، پولیس اور عام شہریوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا، خوف کی فضاء کو ختم کرکے شہروں کی رونقیں بحال کردی ہیں، امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ یہ بات انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے کہی۔

وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ 2013ء میں جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں یہان چار جماعتوں پر مشتمل مخلوط صوبائی حکومت بنی تو صوبے میں امن وامان کی حالت انتہائی خراب تھی مخلوط صوبائی حکومت امن وامان کی بہتری اور گڈ گورننس کے قیام کے نعرے کے ساتھ آئی ہم ایک ویژن اور سوچ کے تحت مسائل پر قابو پانے کے لئے حکومت میں آئے ۔

ہماری حکومت بننے سے پہلے یہاں پر مختلف طبقات کو نشانہ بنایا جاتا تھا ہزارہ برادری کی سو سو لاشیں رکھی ہوتی تھیں اور انتہائی شدید سرد موسم میں ہزارہ برادری انصاف کے لئے سراپا احتجاج ہوتی تھی وزراء تو دور کی بات ہے کوئی بیورو کریٹ ان کے پاس جانے کے لئے تیار ہوتا تھا ہم نے امن وامان کو بہتر بنایا سب سے پہلے امن وامان ہے ہمارے دور میں جو واقعات پیش آئے ۔

میں برملاکہتا ہوں کہ ہم نے ان واقعات پر اپنی آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ ہم نے ان واقعات میں ملوث لوگوں کا پیچھا کیا 8اگست کا واقعہ یا پھر پی ٹی سی اور شاہ نورانی کا واقعہ ہم نے اپنی آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ ہم ان لوگوں کے پیچھے گئے میں میری کابینہ میری فورسز ہم سب نے ان کا پیچھا کیا اور بہادری سے شیر کی طرح ان کے ساتھ لڑے ہیں اور لڑیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سانحہ آٹھ اگست کے تمام سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچادیا ہم زندگی کے ہر شعبے میں بلوچستان کو آگے لیجائیں گے انہوں نے کہا کہ ہم ایک بڑی جنگ لڑرہے ہیں آج موجودہ حکومت قیام امن پر جو توجہ دے رہی ہے اور جس طرح سے جنگ لڑرہی ہے اگر سابقہ حکومتوں کے ادوار میں اس جانب توجہ دی جاتی اور وہ اس جنگ کو جنگ سمجھ کر لڑتیں تو آج ہمارے لئے اس جنگ کو لڑنا انتہائی آسان ہوتا اور آج ہم اس جنگ میں فتحیاب ہوچکے ہوتے ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ہماری فورسز بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں تین دنوں تک لڑتی رہیں اور وہاں کئی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایاگیا یہاں ان لوگوں نے اپنے کیمپ بنائے تھے جہاں وہ لوگوں کو تربیت دے کر بھیجتے اور وہ یہاں عام شہریوں کو شہید کرتے مارے گئے افراد میں نامی گرامی کمانڈر تھے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق پچھلے دور میں بلوچستان سمیت ملک کے اندر ایک دن میں چھ سے سات دھماکے ہوتے تھے آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ بازاروں میں جائیں بازاروں کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں اور لوگ خریداری کررہے ہیں ایک زمانہ تھا کہ یہاں رات کیا لوگ دن کو بھی نکلنے سے ڈرتے تھے آج وہ حالات نہیں آج صورتحال بدل چکی ہے لوگ خوش و خرم ہیں ۔آپ بلوچستان کے کونے کونے میں جائیں ۔

انہوں نے اگلے مالی سال کے بجٹ پر بحث کے دوران حکومت پر ہونے والی تنقید کو خوش آئند کہتے ہوئے کہا کہ مثبت تنقید جمہوریت کا حسن ہے مگر تنقید برائے تعمیر ہونی چاہئے اور ہم نے جو اچھے کام کئے ان کا بھی یہاں ذکر کیا اور سراہا جانا چاہئے تھا کسی نے ہمارے اچھے کام پر توجہ نہیں دی کسی ممبر نے ہمارے اچھے کاموں کی بات نہیں کی بلکہ تمام اراکین صرف پی ایس ڈی پی کی بات کرتے رہے ۔

جب بلوچستان مین امن ہوگا تو پی ایس ڈی پی پر عملدرآمد کیا جاسک گا ماضی میں امن وامان نہ ہونے کی وجہ سے بھی پی ایس ڈی پی پر عمل نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ یہ اس حکومت کا آخری بجٹ ہے اور اچھا بجٹ ہے جسے عوام سراہ رہے ہیں اپوزیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مثبت اقدامات کی تعریف بھی کی ہے اور تنقید بھی کی ۔

انہوں نے اپوزیشن لیڈر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوشش کریں گے کہ جو تجاویز آپ نے دی ہیں ان کو بھی شامل کیا جائے ۔وزیراعلیٰ نے بجٹ کی تیاری پر اتحادی جماعتوں کی کور کمیٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دن رات کیا اور بلوچستان کے موجودہ حالات اور دستیاب محدود وسائل میں ایک اچھا اور بہترین بجٹ بنا کر دیا ۔

انہوں نے اپوزیشن اراکین کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے تحفظات کاازالہ کیا جائے گا۔انہوں نے انٹر کالج صحبت پور کو ڈگری کادرجہ دینے ، زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے ،دریجی میں ڈائیلاسز مشین کی فراہمی کا اعلان کیا ۔اور کوئٹہ میں وومن میڈیکل کالج کے قیام کا بھی اعلان کیا ۔

انہوں نے کہا کہ کینیڈین کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت بلوچستان میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے بنائے جائیں گے انہوں نے بارکھان ہسپتال کو ڈی ایچ کیو کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا جبکہ اسمبلی کے ملازمین کے لئے اعزازیہ دینے کا بھی اعلان کیا ۔