متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تیاری مکمل کر لی ہے اور عنقریب اجلاس بلانے کی درخواست کسی وقت بھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جائے گی ۔
اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی طلبی کا مقصد وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ فوری طورپر استعفیٰ دیں ۔
قومی اسمبلی کے متوقع اجلاس سے سیاست میں زیادہ تلخی اور گرمی پیدا ہونے کا امکان ہے ۔ دوسری جانب ن لیگ اور اس کے اتحادیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وزیراعظم اقتدار کی کرسی پر براجمان رہیں گے اور کسی قیمت پر اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔
اس طرح سے سیاسی محاذ پرحالات کے زیادہ بگڑنے کا امکان ہے جو موجودہ سیکورٹی کی صورت حال میں قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔
ادھر شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ 44قومی اسمبلی کے اراکین جن کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے وہ بھی بغاوت کر چکے ہیں اور اب تمام ایم این اے حضرات حکومتی موقف کے حامی نہیں ہیں ۔
اخباری اطلاعات ہیں کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بھی نواز شریف سے طویل ملاقات کی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طورپر استعفیٰ دیں اور کسی اور کو وزیراعظم نامزد کریں جبکہ نواز شریف نے چوہدری نثار کا یہ موقف رد کردیا ہے۔
ابتداء سے ہی چوہدری نثار وزیراعظم کے دفاع میں کبھی نہیں آئے اور کرپشن کے الزامات پر خاموشی اختیار کی اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نہیں ہیں ۔
تاہم مسلم لیگ کے اندر بھی اختلافات ابھر کر سامنے آرہے ہیں جس سے اس بات کو زیادہ تقویت مل رہی ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ن لیگ حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور یہ زیاد ہ دنوں تک چلتی نظر نہیں آرہی ۔
اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے اورآنے والے دنوں میں سیاسی گرما گرمی مزید بڑھے گی ۔حزب اختلاف کی کچھ جماعتیں وزیراعظم کے استعفیٰ کے مسئلے کو سڑکوں پر لے جارہی ہیں اور ان کے خلاف پوسٹر بھی لگائے ہیں جس میں ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
سوائے محمودخان اچکزئی ‘ مولانا فضل الرحمان اور حاصل بزنجو کے جو حکومت کے اتحادی ہیں وزیراعظم کے کیمپ میں براجمان ہیں ۔مولانا فضل الرحمان حسب توقع وزیراعظم کی حمایت میں آئے اور سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ جے آئی ٹی کو متنازعہ قرار دے کر وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کی ۔
تاہم وزیراعظم کو ذاتی مفادات کے تحت موجودہ صورت حال کا کوئی ادراک نہیں ہے وہ ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور ہر صورت جبکہ سیکورٹی کی صورت حال زیادہ خراب ہے۔
لیکن وزیراعظم اس سے قطعی طورپر لا پرواہ نظر آتے ہیں بلکہ ان کی زیادہ تر توجہ اور دلچسپی کرسی بچانے اور اس کو محفوظ بنانے پر نظر آتی ہے ۔ قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کے بعد ان کو فوری طورپر استعفیٰ دینا چائیے اور اقتدار نئے وزیراعظم کے حوالے کرنا چائیے تاکہ قومی سلامتی کے امور پر فوری طورپر توجہ دی جاسکے ۔
دوسری طرف بھارت، اس کاوزیر اعظم اور فوج کے سربراہ پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں اور کشمیر سے متعلق صلح و مشورے اعلیٰ پیمانے پر جاری ہیں ۔بھارتی وزیراعظم پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے احکامات دیں اور کشمیر کے مسئلے کا حل نکالیں ۔
کشمیر ی مجاہدین کے حملوں کے بعد بھارتی حکومت ‘ بھارتی رہنماء اور بھارتی میڈیا پاکستان اور اس کی فوج پر الزامات لگا ر ہے ہیں حالانکہ غیر مسلح کشمیری آئے دن مظاہرے کررہے ہیں جس میں ایک سال کے دوران 100سے زائد مظاہرین کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیاہے ۔
ہزاروں کی تعداد میں گولیاں لگنے سے اندھے اور معذور ہوگئے ہیں ۔ نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج حملہ آور ہے اور مجاہدین کی طرف سے کارروائی پر بھارتی حکومت پاکستان کو موردالزام ٹھہراتی ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔
وزیراعظم نواز شریف ان تمام باتوں سے بالکل لا تعلق ہیں ان کے طرز عمل کو دیکھ کر یہ اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر ہیں اور کوئی کشیدگی نہیں۔
شاید ایسی صورت حال میں نواز شریف تجارتی روابط بڑھانے کی کوشش کریں گے اور اس حقیقت کو نظر انداز کریں گے کہ بھارت اپنے ملک میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے اور پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں نہ صرف مصروف ہے بلکہ جنگ کے لئے نفسیاتی ماحول بھی تیار کررہا ہے جبکہ پاکستان میں نواز شریف کے لئے کرسی کی اہمیت زیادہ ہے ۔
انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ اگروہ اس بار اقتدار سے گئے تو کبھی بھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکیں گے شاید اقتدار میں یہ ان کے آخری دن ہوں ۔