ماضی کی نواز حکومتوں کوکرپشن ‘ بد عنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت دو مرتبہ بر طرف کیا گیا تھا اوراس بار بھی قریب قریب ایسا ہی ہونے کا امکان ہے نو از شریف اور اس کے مصاجین بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس بار بھی نواز حکومت کو بر طرف کیاجائے کیونکہ نواز شریف استعفیٰ ہر گز نہیں دینگے تاکہ ان کو تیسری بار بھی سیاسی شہادت کا درجہ ملے ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے خلاف رائے عامہ بڑھتی جارہی ہے یہاں تک کہ مسلم لیگ ن میں بھی دھڑے بندی سامنے آگئی ہے ۔ سابق گورنر کھوسہ نے انکشاف کیا ہے کہ 80 کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے اراکین ناراض ہیں اور کسی وقت بھی اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔
دوسری اطلاع کے مطابق چوہدری نثار اور شہباز شریف اس بات کے حق میں ہیں کہ نواز شریف استعفیٰ دیں اور اپنے کسی رکن کو وزیراعظم نامزد کریں ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شہباز شریف اور چوہدری نثار طاقت ور حلقوں سے رابطے میں ہیں تاکہ مسئلے کا ایک قابل قبول حل نکالاجائے ۔
بہر حال نواز شریف کی یہ خواہش ہے کہ ان کو تیسری بار بھی سیاسی شہادت کا درجہ ملے اور وہ اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک کے اندر سیاسی اور آئینی بحران کو زیادہ طول دیاجائے تاکہ ان کی حکومت کو طاقت کے ذریعے بر طرف کیاجائے لیکن درمیان میں عدلیہ اور پوری وکلاء برادری حائل ہے وہ اس مسئلے کا جلد سے جلد حل تلاش کرے گی اور وزیراعظم کی تمام ترکوششوں کو ناکام بنائے گی ۔
جے آئی ٹی رپورٹ حتمی نہیں بلکہ یہ نواز شریف اور اس کے بچوں کے خلاف ایک زبردست چارج شیٹ ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے ۔وزیراعظم کی حیثیت سے ان پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں جے آئی ٹی رپورٹ دراصل سپریم کورٹ کے دستاویزات کا حصہ بن گئی ہے ۔
سپریم کورٹ کا متعلقہ بنچ اس کا مطالعہ کرے گی اور اس کے بعد دونوں طرف کے وکلاء دلائل دیں گے اس کے بعد سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آسکتا ہے اس سے قبل نہیں۔ ملکی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ جلد سے جلد متوقع ہے، فیصلہ میں زیادہ تاخیر سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوگی ۔
مخالفت میں فیصلہ آنا نوازشریف اور اس کے مصاحبین کے مفاد میں نہیں ہے ان کی خواہش ہے کہ مخالفین سڑکوں پر آئیں، سڑکوں پر تصادم ہو، ملک میں انار کی پھیلے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مداخلت کریں، نواز حکومت کی برطرفی عمل میں آئے اور اس طرح نوازشریف سیاسی شکست وریخت سے بچ جائیں ۔
مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا ریاست اور ریاستی اداروں سے توقع ہے کہ وہ چابکدستی سے فیصلہ کریں گے اور ملک کو انار کی طرف نہیں جانے دیں گے جو دشمن ممالک کی خواہش ہے ۔
عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ نواز شریف اور اس کے مصاجین نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور ملک کو انار کی طرف نہ لے جائیں اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیں اور لندن میں اپنے فلیٹ میں مستقل قیام کیلئے روانہ ہوجائیں۔
یہ بحران ہر حال اور ہر صورت میں نواز شریف کے سیاسی موت کا سامان ہے ، ان کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا ۔
ان پر سب سے بڑا الزام ہے کہ انہوں نے عدالتوں ‘ پارلیمان اور سب سے بڑھ کر عوام الناس کے سامنے جھوٹ بولا جونا قابل معافی ہے ۔
انہوں نے پارلیمان ‘ عدلیہ ‘ میڈیا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی اس بار وہ اس الزام میں ’’گرفتار ‘‘ ہیں ان کی رہائی ممکن نظر نہیں آتی سرکاری وکلاء یا وکلاء کا پینل ان کی مدد نہیں کر سکے گی اس لیے عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے باعزت طریقہ سے اقتدار سے رخصت ہوجائیں ۔
وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دیں اور مزید رسوائی سے بچیں ۔ اتنی بڑی دولت وہ قبر میں نہ لے جائیں ،جتنا کچھ انہوں نے استعمال کیا وہی ان کا ہے باقی دوسروں کا ۔ یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف وزیراعظم کے استعفیٰ کے حامی ہیں ۔
چوہدری نثار نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نہیں ہیں ۔ اب صرف میدان میں ان کے بھائی شہباز شریف ہیں جو ملک کے وزیراعظم بن کر ان کے مفادات کی نگرانی کریں گے ۔
ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔ ریاست اور ریاستی ادارے حرکت میں آگئے تو وزیراعظم کے ساتھ صرف چند ہی لوگ رہ جائیں گے ویسے بھی نواز شریف نے دوست نہیں بنائے صرف مطلبی لوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا۔
حکومت میں رہ کر صرف تجارت کیا، سرکاری حیثیت کو دولت سمیٹنے پر استعمال کیا ۔
ایسی صورت میں اسی سے زائد مسلم لیگی اراکین قومی اسمبلی کسی بھی وقت بغاوت کرسکتے ہیں کیونکہ ان کو چار سالہ دور حکومت میں مکمل نظر انداز کیا گیا تھا ، وہ اپوزیشن سے مل کر ان کا تختہ الٹ دیں گے ۔
بہر حال ہر گزرنے والا دن نواز شریف کیلئے بری خبر لارہا ہے اس لیے وہ کوئی حتمی فیصلہ کریں اور ملک کو بحران میں نہ لے جائیں تو بہتر ہے ۔