گزشتہ ہفتہ دس دنوں کے دوران بلوچستان کے دارالخلافہ میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے جس میں دو اعلیٰ ترین پولیس افسران کو شہادت نصیب ہوئی ۔ پہلا حملہ قلعہ عبداللہ کے ڈی پی او پر ہوا جہاں ایک خودکش حملہ کیا گیا ، اس میں ڈی پی او موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ۔
دہشت گرد موٹر سائیکل پر تھا اور اس نے اپنی موٹر سائیکل ڈی پی او کے گاڑی سے ٹکرا دی ۔ ابھی تک حملہ آور کی شناخت نہیں ہو سکی لیکن طالبان کے ایک گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ چمن شہر میں پیش آیا جوافغان سرحد پر واقع ہے جہاں افغان سیکورٹی اہلکاروں کی بھر مار ہے ۔
گمان یہ ہے کہ یہ واقعہ این ڈی ایس کی ایماء پر ہوا ہے، یہ ایک منظم حملہ تھا جوباقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ۔
تاہم حتمی رپورٹ سیکورٹی اداروں کی ہوگی کہ اس میں کون ملوث ہے ۔ دوسرا دہشت گردی کا واقعہ کلی دیبہ میں پیش آیا جس میں ایس پی مبارک شاہ اور اس کے تین محافظ جاں بحق ہوئے ۔
ڈرائیور کو کئی گولیاں لگیں، شدید زخمی حالت میں ان کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کی زندگی خطر ے سے باہر بتائی جاتی ہے ۔ اس حملے کی بھی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ۔
ان دونوں حملوں میں مذہبی انتہا پسند اور دشمن ممالک کے ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آرہے ہیں ۔
بلوچستان کا دارالخلافہ کوئٹہ ہر لحاظ سے غیر محفوظ اور خطر ناک شہر ہے اس کی بنیادی وجہ شہر اور اسکے گردونواح میں دس لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی ہے جن کا تعلق افغانستان سے ہے ۔
ابھی تک ریاست یا ریاستی اداروں کے پاس ان سے متعلق معلومات نہیں ہیں انہی میں سے لوگ دہشت گردی کرتے آرہے ہیں ۔
ہم اس تاثر سے اختلاف کرتے ہیں کہ دہشت گرد افغانستان سے آرہے ہیں اور پاکستان میں داخل ہورہے ہیں بلکہ یہ دہشت گرد پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہیں اور حکم ملتے ہی کارروائیاں کرتے ہیں اس لیے سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو بلوچستان سے جلد سے جلد نکالا جائے۔
ان کے چلے جانے کے بعد سیکورٹی کی صورت حال میں نوے فیصد بہتری آئے گی ۔ وفاقی حکومت فضول باتوں پر توجہ دیتی ہے کہ افغانوں کو ملک سے نکالنے کے بعد افغانستان بھارت کے زیادہ قریب تر ہوجائیگا ۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا ‘ بھارت اور افغانستان کا اتحادبن چکا ہے جو ہمارے دفتر خارجہ کو نظر نہیں آرہا ۔ بلکہ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم مودی کی تحسین کی کہ بھارت نے افغانستان میں امریکا کی مدد کی ۔ اس کے بعد کسی قسم کی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑہوچکا ہے ۔
کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں دہشت گردی کی خوفناک وارداتیں اس وقت تک ہوتی رہیں گی جب تک لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن مکمل سلامتی کے ساتھ موجود ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ بلکہ پاکستان کے متعلقہ افسران بھی ایران کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے لاکھوں افغانوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی ‘ پاکستان اور ایران میں صرف یہ فرق ہے کہ ایران نے تمام افغانوں کو مہاجر کیمپوں میں رکھا ہے اور ان کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی ہے جبکہ پاکستان میں ان کو آزاد رکھا گیا ہے۔
کوئٹہ اور پشاور میں لاکھوں کی تعداد میں افغان خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن ہر طرح کے کاروبار میں مصروف ہیں اورملک کی لاکھوں ملازمتوں اور روزگار کے ذرائع پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ کوئٹہ کے کسی بھی بڑے سرکاری اسپتال کا رخ کریں تو وہاں اسی فیصد مریض افغانی ہوں گے۔
ہمارے ملک کی تمام تر سہولیات پاکستانیوں کے لئے نہیں بلکہ افغانیوں کے لئے ہیں ’ جس دن افغانوں کا پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا ، افغان کٹر مذہبی اور جنون کی حد تک مذہبی تھے اور آج تک ہیں ۔
یہ طالبان ‘ داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے لئے ریکروٹمنٹ کا ذریعہ رہے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ کوئٹہ شہر اور اس کے گردونواح سے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو فوری طورپر نکالا جائے اور ان کو افغانستان ڈی پورٹ کرنے سے پہلے ان کو کیمپوں میں رکھا جائے۔
ان کے تمام روابط کاٹ دئیے جائیں تاکہ یہ پاکستان کے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے سیکورٹی رسک نہ بنیں۔
دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کوکوئٹہ اور اس کے گردونواح سے فوری طورپر نکالاجائے اور اس کو محفوظ شہر بنایا جائے ۔