حکومتی رویہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ اور اس کے رہنما ء سیاسی تصادم کی طرف ملک کو لے جارہے ہیں شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ ن حکومت نہیں کرے گی تو کسی دوسری پارٹی کو بھی اقتدار میں آنے نہیں دیں گے بلکہ وہ بضد ہیں کہ میاں نوازشریف ہی وزیراعظم رہیں گے اور کسی دوسرے کو کسی بھی قیمت پر اقتدار نہیں سونپیں گے چاہے ملک خانہ جنگی کی طرف ہی کیوں نہ چلا جائے یعنی ہر قیمت پر اور ہر حال میں نواز شریف ہی وزیراعظم ہوں گے۔
البتہ ان مسلم لیگی رہنماؤں اور وزراء نے یہ نہیں بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تو مسلم لیگی وزراء کا رد عمل کیا ہوگا کیونکہ عدالتی احکامات پر عمل کرنا لازمی ہوگا کیا وہ پھر بھی کسی دوسرے شخص کو وزیراعظم نہیں بنائیں گے۔
بعض حضرات نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے کہ چار وزراء جے آئی ٹی پر تنقید کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ جے آئی ٹی از خود وجود میں نہیں آئی تھی اس کو سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بنایا گیا تھا ۔
اس لیے وہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کا اجلاس پیر کو ہورہا ہے جس میں دونوں طرف کے وکلاء سپریم کورٹ کو ایک منصفانہ فیصلہ تک پہنچنے میں مدد کریں گے ساتھ ہی حکومتی پارٹی اوردوسرے مخالفین نئے نئے معاملات کی طرف سپریم کورٹ کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کریں گے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ سپریم کورٹ جلد سے جلد اس مقدمہ میں فیصلہ دے گی جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔
جے آئی ٹی صرف سپریم کورٹ کی مدد کے لئے بنائی گئی تھی از خود جے آئی ٹی کا فیصلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور نہ ہی جے آئی ٹی نے اپنی کوئی حتمی رائے قائم کی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی فیصلہ سنایا ہے ۔ یہ محض تحقیقات کی ایک رپورٹ ہے جو عدالت عالیہ کو پیش کی گئی ہے ۔ عدالت اس پر غور کرے گی اور فیصلہ اپنا سنائے گی ۔
لہذا مسلم لیگی رہنماء عدالت عالیہ پر دباؤ ڈالنا بند کردیں حکومتی وسائل کو سپریم کورٹ کے خلاف استعمال نہ کریں تو بہتر ہے ۔
بہر حال فیصلہ وہی ہوگا جو سپریم کور ٹ کا بنچ سنائے گا اور اس کو کوئی شخض یا ریاستی ادارہ تبدیل نہیں کر سکے گا۔ اگر یوسف رضا گیلانی گھر جا سکتے ہیں تو نواز شریف کیوں نہیں ۔