|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2017

کراچی: معاشرے میں عدم برداشت دن بدن بڑھتاجارہاہے۔ملک میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے فروغ کیلئے اقلیتوں کوملک میں مساوی حقوق دینا ہونگے۔

تعلیمی نظام میں مذہبی تفریق کو ختم کرناضروری ہے۔تاکہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلتیوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بہترتعلقات کو فروغ دیاجاسکے۔

عدم برداشت کے خاتمہ کیلئے سوسائٹی کے مائنڈسیٹ کوتبدیل کرنے کی اشدضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹڈی سینٹرجامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹرڈاکٹرسیدجعفراحمد،معروف سینئرصحافی وسعت اللہ خان،مذہبی اسکالرخورشیدندیم،اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹرخالدمسعود،رومانہ بشیر، سید احمد بنوری، ڈاکٹرخالدہ غوث نے پاک انسٹیٹیوٹ فارپیس اسٹڈیزکی جانب سے’’سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کا کردار‘‘کے عنوان سے مقامی ہوٹل میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ورکشاپ کی صدارت سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کی۔ڈاکٹر جعفراحمد کا کہنا تھا کہ نظری ایشوز سے استاد معاشرے کی اور نصاب ریاست کی نمائندگی کررہا ہے۔ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے۔

ریاستی آئین کے ذریعے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری ماضی کی نسبت اب نہ ہونے کے برابر ہے۔

ماضی میں لوگوں میں برداشت کامادہ موجودتھا۔لیکن اب تحمل،بردباری،اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کاعنصرختم ہوتاجارہا ہے۔عدم برداشت اور میڈیاکے کردارپرگفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آئین ہمیں بہت سارے بنیادی حقوق دیتا ہے۔


تعلیم،صحت،بولنے اوراظہاررائے کی آزادی کاحق آئین نے دیا۔کسی بھی ملک کی ریاست 100فیصداس کی پاسداری نہیں کرتی۔آئین بنانے والے ایک ہاتھ سے حقوق فراہم کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے واپس بھی لے لیتے ہیں۔میڈیاہر چیز کوسوفیصدہائی لائٹ نہیں کرتا۔

میڈیاکوجوحقیقت میں نظر آرہا ہے وہ اسے بھی مکمل نہیں دکھاتا۔سچ سننے،کہنے اور بولنے کاحوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔اقلیتوں کودرپیش مسائل پرکوئی بات کرنے کوتیار نہیں ہے۔رومانہ بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کوسوئپر،پلمبر اور کلینر کی نوکریاں دی جاتی ہیں۔