سریاب روڈ کے اطراف کوئٹہ شہر کی قدیم ترین بستیاں آباد ہیں۔ ابتداء میں یہ علاقہ کوئٹہ شہر کا گرین بیلٹ یا زرعی پٹی کہلاتاتھا ۔آبادی میں اضافہ اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ گرین بیلٹ تباہ ہوگیا ۔
سریاب روڈ کے اطراف کی بستیاں 12میل کے فاصلے پر محیط ہیں جو وسط شہر سے شروع ہو کر ہزار گنجی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان بستیوں میں 15لاکھ سے زائد نفوس آباد ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں انسانی آبادی بنیادی شہری سہولیات سے محروم ہے۔
70سال کے بعد بھی پورے علاقے کو ایک مربوط سیوریج کا نظام نہیں دیا گیا۔ جتنی بھی سہولیات کوئٹہ میں شہریوں کو فراہم کی گئیں ہیں وہ سب کے سب تجارتی مراکز اور سرکاری دفاتر کے ارد گرد کے علاقوں کے لیے ہیں ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام وزرائے اعلیٰ نے سریاب کے باسیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ صرف نواب اکبربگٹی مرحوم ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے سریاب روڈ تعمیر کی اور تعمیر کے معیار کو یقینی بنایا۔
سریاب روڈ کے اطراف میں بلوچستان کے نصف درجن کے قریب وزرائے اعلیٰ اور گورنر دائمی طورپر رہائش پذیر ہیں اس کے باوجود سریاب کے تمام علاقے شہری سہولیات سے محروم ہیں شاید ان وزرائے اعلیٰ نے اس میں ذاتی دلچسپی نہیں لی اور صرف ’’ کام چلاؤ ‘‘ پر گزارا کیا اور بنیادی معاملات پر توجہ نہیں دی ۔ سریاب کے رہائشیوں کو شکایت ہے کہ ان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے ذاتی دلچسپی لے کر سریاب کے مکینوں کے لئے چند ایک چھوٹے موٹے اسکیم منظور کیے لیکن موصوف وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی ان چھوٹی اسکیموں کو پی ایس ڈی پی کا حصہ نہ بنا سکے اور نہ ہی ان کو یہ جرات ہوئی کہ وہ حامد اچکزئی اور ان کے طاقتور سیکرٹری کو طلب کرکے ان اسکیموں کے لیے فنڈ زطلب کرتے۔ انہوں نے ان چھوٹی اسکیموں کو مکمل کیا مگر غیر ترقیاتی اخراجات سے ۔
اس سے صرف اور صرف سریاب کے مکینوں کے خلاف نفرت ‘ تعصب اور امتیازی سلوک کا اشارہ ملتاہے اگر ایسا نہیں ہے تو وزیراعلیٰ بلوچستان عملی طورپر ثابت کریں اور سریاب روڈ کے لئے بڑی سیوریج اسکیم کو نہ صرف منظور کرائیں بلکہ اس پر فوری اور موجودہ مالی سال میں عمل درآمد کروائیں ۔ یہ ایک میگا پروجیکٹ ہے اس کے لیے ستر ارب کی رقم صوبائی ترقیاتی بجٹ سے لیے جائیں اگرضروری ہو تو تمام ایم پی اے حضرات کے مکمل فنڈز روکے جائیں اور سب سے پہلے وسیع تر سریاب روڈ سیوریج پروجیکٹ کو مکمل کیا جائے۔
یہ ایک گراؤنڈ ٹرنک لائن ہو جو ہزار گنجی سے شروع ہوکر ایوان قلات پر ختم ہو بلکہ یہ سیوریج کی اسکیم Multi purposeہو اور اس کے ایک سے زائد اہداف ہوں ۔ایک منصوبہ یہ بھی ہو کہ گندے پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر سریاب کو ایک مرتبہ پھر شہر کا گرین بیلٹ بنایا جائے ۔ اس پانی سے علاقے میں کروڑوں درخت لگائے جا سکتے ہیں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس پانی کو گھریلو صفائی اور گاڑیاں وغیرہ دھونے کے کام میں لایا جا سکتا ہے اس طرح سے پانی کی قلت کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ صوبائی حکومت کی توجہ صرف اپنے اس میگا پروجیکٹ کی طرف ہونی چائیے اور سارے وسائل یہاں خرچ کے جائیں تاکہ پینے کے پانی کی قلت کا مقابلہ کیاجاسکے ۔ سریاب روڈ سیوریج نظام کی تعمیر کو اولیت دی جائے متعصب افسران کو اس بات کی قطعاً اجازت نہ دی جائے کہ وہ سریاب کے مکینوں کو مسلسل امتیازی سلوک کا نشانہ بناتے رہیں ۔
وزیراعلیٰ فوری طورپر ایک اہم اجلاس طلب کریں اور اس میں یہ فیصلہ کیاجائے کہ سریاب روڈ کی بستیوں کیلئے اعلیٰ پیمانے پر سیوریج نظام فوری طورپر تعمیر کی جائے تاکہ علاقے میں بیماریوں اور ابلتے گٹر اور نالوں سے چھٹکارہ حاصل کیاجائے۔