|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2017

پشاور کے ایک نجی اسکول کے پرنسپل نے 80 خواتین کے ساتھ جنسی عمل کرنے اور کم از کم ستائیس خواتین کی فحش ویڈیوز بنانے کا اعتراف کر لیا ہے۔ اسکول کی طالبات نے بھی پرنسپل پر ایسی ہی ویڈیوز بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

پشاور پولیس کے مطابق ایک نجی اسکول (حیات آباد چلڈرن اکیڈمی) کے پرنسپل عطااللہ مروت اپنے اسکول کی عمارت کو گزشتہ کئی برسوں سے ’قحبہ خانے‘ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ الزامات کے مطابق اسکول اوقات کے بعد پرنسپل اپنی ذاتی گاڑی میں جسم فروش خواتین کو اپنے اسکول لاتا تھا۔

اسی اسکول کی ایک طالبہ کا ڈی ڈبلیو سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’اسکول کے مختلف حصوں میں متعدد خفیہ کیمرے نصب تھے، جن سے طالبات کی قابل اعتراض حرکات کی ویڈیوز بنا کر انہیں یا پھر ان کے والدین کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔‘‘

جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے چند روز قبل اسکول کے ایک طالب علم نے اس حوالے سے معلومات فراہم کیں، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کی اور پرنسپل کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق ملزم کے قبضے سے جنسی ادویات، منشیات اور سینکڑوں فحش ویڈیوز برآمد کر لی گئی ہیں۔ پولیس نے ملزم کے خلاف بارہ مقدمات درج کیے۔

مقامی تھانے کے ایک اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو نام  ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پرنسپل کی گرفتاری کے بعد اعلیٰ عہدوں پر تعینات متعدد افسروں نے تھانے آ کر ملزم کی رہائی کے لئے پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، جس کی ویڈیو بھی پولیس نے بنائی لیکن پولیس نے کسی دباؤ میں آئے بغیر مقدمہ درج کیا۔

اس پولیس اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس اسکینڈل میں کئی دیگر با اثر لوگ بھی ملوث ہو سکتے ہیں، ’’ملزم کے موبائل فون سے بھی کمسن لڑکوں، خواتین اور طالبات کے ساتھ فحش حرکات کی ویڈیوز ملی ہیں۔‘‘

 مقامی تھانے کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پولیس نے اس سلسلے میں چند دیگر متاثرہ خواتین کے بیانات بھی قلم بند کیے ہیں۔ پشاور میں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے تمام اسکولز بند ہیں، اس لئے پرنسپل  عطااللہ مروت نے اسکول چھٹیوں کے دوران دن کے وقت بھی جسم فروش خواتین کو اسکول لانا شروع کیا اور اسکول کے بچوں کی غیر حاضری کی وجہ سے ان کی گرفتاری ممکن ہوئی۔

پرنسپل کی گرفتاری کے بعد حیات آباد کے رہائشیوں اور خاص کر اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین نے پرنسپل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ حیات آباد میں  پاکستان کے چند ایک مشہور اسکولوں کی برانچز کے علاوہ نجی اسکولوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے اسکول رہائشی مکانات کرائے پر لے کر بنائے گئے ہیں۔ اسکول اوقات کے بعد انہی اسکولوں کو بطور ٹیوشن اکیڈمیز استعمال کیا جاتا ہے۔

[No title] (DW/M. Shah)

چند روز قبل اسکول کے ایک طالب علم نے اس حوالے سے معلومات فراہم کیں، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کی اور پرنسپل کو گرفتار کر لیا

پرنسپل عطااللہ مروت نے بھی حیات آباد چلڈرن اکیڈمی کے نام سے اسکول شروع کیا۔ وہ خود اسلامیات میں ایم اے کر چکے ہیں۔

عائد کیے گئے الزامات کے مطابق پرنسپل نے چند ہفتے پہلے اسکول کی ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کیا اور اس کے بعد اس کی والدہ کو بلیک میل کر کے ایک قابل اعتراض ویڈیو بنائی۔ ماں اور بیٹی کو دھمکیاں دی گئیں کہ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جائے گا۔ متاثرہ خاتون نے جمعرات کے روز عدالت میں اس حوالے سے اپنا ایک بیان ریکارڈ کروایا ہے۔

 جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ عدالت نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

ملزم نے دوران تفتیش درجنوں فحش ویڈیوز بنانے اور باعزت خواتین کو ہراساں کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے لیکن ملزم نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ اسکول کی طالبات کے ساتھ بھی جنسی عمل کرنے کے واقعات میں شامل ہے۔

ملزم عطااللہ مروت کی سینٹرل جیل پشاور منتقلی کے باوجود متعدد متاثرہ خواتین اب بھی پریشان ہیں کہ خفیہ کیمروں سے بنائی گئی فحش ویڈیوز کے منظر عام پر آنے سے ان کے لئے معاشرے میں رہنا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ متاثرہ طالبات کی زندگیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔

بشکریہ dw.com