|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2017

افغانستان میں طالبان کے ترجمان اور کوئٹہ شوریٰ نے تصدیق کی ہے کہ امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے ایک بیٹے نے جمعرات کو جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں خود کش حملہ کیا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور کوئٹہ شوریٰ کے ایک ممبر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خود کش حملہ 20 سالہ امیر ہیبت اللہ خان کے بیٹے عبدالرحمان خالد نے کیا ہے۔

ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ خالد کو خود کش حملہ کرنے کی تربیت دی گئی تھی اور وہ گذشتہ تین ماہ سے اپنی باری کے انتظار میں تھا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ امیر ہیبت اللہ اخونزادہ کو خود کش حملے کے بارے میں علم تھا اور وہ اس فیصلے سے متفق تھے۔ ذرائع کے مطابق اخونزادہ کی اپنے بیٹے خالد سے تین ماہ قبل آخری ملاقات ہوئی تھی۔

تاہم اس خبر کی تصدیق آزاد ذرائع سے نہیں ہو سکی ہے۔

یاد رہے کہ جمعرات کو ہلمند میں گریشک کے علاقے میں طالبان نے افغان نیشنل آرمی کی کئی چیک پوسٹوں پر حملے کیے تھے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ان حملوں کو پسپا کر دیا تھا۔

گریشک کے پولیس کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو ہونے والے خودکش حملے میں دو افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 11 زخمی ہوئے تھے۔

تاہم دیگر ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس حملے میں آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے جنوبی افغانستان کے مرکزی ترجمان قاری یوسف احمدی کے حوالے سے بتایا ہے کہ عبدالرحمان خالد کی عمر 23 سال تھی اور ان کو حافظ خالد کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ خودکش حملہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے علاقے گریشک میں کیا گیا۔

عبدالرحمان نے بارود سے بھری گاڑی فوجی اڈے میں اڑا دی تھی۔

ترجمان کے مطابق عبدالرحمان خودکش بمبار بننے کی خواہش رکھتا تھا اور ’گذشتہ جمعرات کو انھوں نے اپنا مشن مکمل کیا۔


ہلمندہموی گاڑیاں افغان فورسز سے چھینی گئی تھیں


اطلاعات کے مطابق طالبان نے گذشتہ جمعرات کو تین ہموی گاڑیاں جو افغان فورسز سے چھینی ہوئی تھیں فوجی اڈے کی چیک پوسٹ پر اڑا دی تھیں۔

طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے قریبی رفقا میں سے ایک رہنما نے بتایا کہ عبدالرحمان نے اپنے والد کے امیر بننے سے قبل خود کش بمبار بننے کے لیے اپنا نام لکھوایا تھا۔

یاد رہے کہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ پچھلے سال مئی میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں طالبان کے امیر ملا اختر محمد منصور کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے امیر مقرر ہوئے تھے۔

سینیئر طالبان رہنما نے دعویٰ کیا کہ ‘اس سے قبل سابق طالبان امیروں کے کئی رشتہ داروں نے خودکش حملے کیے ہیں لیکن ملا اخونزادہ پہلے امیر ہیں جن کے بیٹے نے خودکش حملہ کیا ہے۔’

تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں اور اس وقت پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتے کے اس حملے میں ملا ہیبت اللہ کا بیٹا ہلاک ہوا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب ہلمند میں لڑائی میں شدت آئی ہے۔ ہلمند کے زیادہ تر علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور طالبان لشکر گاہ کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے لیکن افغان فورسز اور امریکی فضائیہ نے ان کو دارالحکومت لشکر گاہ سے پیچھے دھکیل دیا۔


امریکی بمباری میں افغان پولیس اہلکار ہلاکہلمندامریکی بمباری میں پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ گریشک کے ایک گاؤں میں طالبان کے خلاف کارروائی کر رہے تھے


صوبہ ہلمند میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی کارروائی میں 16 افغان پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

حکام کے مطابق یہ واقعہ ہلمند کے علاقے گریشک میں ہیش آیا۔

افغان پولیس نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا امریکی بمباری میں پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ گریشک کے ایک گاؤں میں طالبان کے خلاف کارروائی کر رہے تھے۔

نیٹو نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ’فرینڈلی فائر‘ میں کتنے افغان پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ نیٹو نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں گے۔

بشکریہ بی بی سی اردو