گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے درجن بھر یا اس سے زائد شہروں میں مظاہرے کیے جس میں ’’ گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ یہ مظاہرے پنجاب کے بعض کلیدی شہروں میں ہوئے جن کی قیادت پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے کی ۔
اس میں لوگ بینر اٹھائے ہوئے تھے جن پر ’’ گونواز گو‘ ‘کے نعرے درج تھے ، وہ پارٹی کا پرچم لیے ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے پہلے ہی یہ واضح اعلان کیا تھا کہ وہ جلد سڑکوں پر آئیں گے اور ’ ’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگائیں گے۔ چونکہ پاکستان میں مسابقت کی سیاست عروج پر ہے، کل کو دوسری پارٹیاں بھی ’’ گو نوازگو ‘‘ کے نعرے سڑکوں پر لگائیں گی ان میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پیش پیش ہوں گے۔
اس طرح رائے عامہ ہموار کرنے کی دوڑ شروع ہوجائے گی بلکہ پیپلزپارٹی نے یہ دوڑ شروع کردی ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ کب دوسری پارٹیاں خصوصاً تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اس دوڑ میں شریک ہوجائیں گی ۔ وکلاء پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ بھی جلد سڑکوں پر آئیں گے اس کے ساتھ وہ وکلاء کنونشن بھی منعقد کریں گے اس طرح سے وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ بڑھایا جائے گاتا کہ وہ فوری طورپر استعفیٰ دیں۔
ابھی تک ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے کہ نواز شریف اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے رہے ہیں ۔بعض مخالفین کا خیال ہے کہ نواز شریف استعفیٰ کی مزاحمت کررہے ہیں تاکہ ملک کے حالات خراب ہو ں اور اس مسئلہ پر ملک بھر میں ہنگامہ آرائی ہو اور اس دوران کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ وہ اپنی زیر نگرانی نئے انتخابات کرائیں ۔ ان کو قوی امید ہے کہ ان کے اور ان کے رفقاء کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ اکثریتی سیٹیں آسانی کے ساتھ جیت سکتے ہیں۔
بعض مخالفین کا بھی یہ خیال ہے کہ نواز شریف کو انتخابات میں کوئی بھی پارٹی نہیں ہر اسکتی ، وہ اکثریت حاصل کر لیں گے لیکن شاید حالات اس طرف کا رخ نہیں کررہے بلکہ مخالف سمت میں رواں ہیں ۔ایک واضح رائے یہ بھی ہے کہ نواز شریف عدالتی جنگ ہار چکے ہیں اور اب بس سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے ہی والا ہے ۔ یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ نواز شریف کیس کا فیصلہ کب اور کتناجلد آئے گا البتہ یہ بات طے ہے کہ نواز شریف اپنی اقتدار کی مدت پوری کر چکے ہیں ۔
اپنی نا اہلی کے بعد بھی وہ مسلم لیگ کی اکثریتی حکومت کی بھاگ دوڑ درپردہ چلانے کی کوشش کریں گے۔ شاید مسلم لیگ کے باغی ارکین اسمبلی میں اس عمل میں خلل ڈالنے کی کوشش کریں۔مسلم لیگ کے اندر بعض مخالفین کا خیال ہے کہ اسی کے لگ بھگ قومی اسمبلی کے اراکین وزیراعظم اور اس کے مصاحبین سے سخت ناراض ہیں اس لیے نواز شریف کے اس اسکیم کے کامیاب ہونے کے امکانات کچھ زیادہ نہیں ۔
نواز شریف کی شکست یقینی ہے کیونکہ ان کی لڑائی سیاسی مخالفین کے علاوہ پاکستان کے ریاستی اداروں سے ہے جن کو شکست دینا نواز شریف ٹیم کے بس کی بات نہیں ، اس لیے نواز شریف زیادہ تر منفی سیاست کی طرف مائل ہیں اور تقریباً ہر طبقہ فکر کے خلا ف اشتعال انگیزی کررہے ہیں تاکہ حالات بہتری کی طرف نہ جائیں ۔تاہم ملک میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے ، آئے دن دہشت گردی کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ تقریباً روزانہ اس قسم کی خبریں ملک کے مختلف حصوں سے آرہی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ ہوا ۔ یہاں تک کہ گنجان آبادی والے علاقوں اور شہروں میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ‘ بلکہ خودکش حملے ہورہے ہیں ۔
کوئٹہ میں گزشتہ دنوں دو سینئر پولیس افسروں پر حملے کیے گئے اور دونوں ان حملوں میں جان بحق ہوئے ۔ ایسی صورت حال میں عام انتخابات کروانا مشکل نظر آتا ہے ، نواز شریف دوبارہ انتخابات جیتنے کی توقع نہ رکھیں ۔