|

وقتِ اشاعت :   July 27 – 2017

اسلام آباد: چاروں صوبوں نے ملک میں ’’انتظامی مجسٹریٹس‘‘ کی بحالی کا مطالبہ کر دیا، وفاق کو اس بارے میں ضروری قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا۔

انتظامی مجسٹریٹ کو امن و امان، پرائس کنٹرول سے متعلق اختیارات حاصل ہوں گے، پولیس نے مجوزہ قانون کی مزاحمت شروع کر دی، اس بارے میں اعلیٰ ترین پولیس افسران کی طرف سے وزارت قانون سمیت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے اراکین سے بھی رابطے کئے گئے ہیں۔

اس امر کا اظہار اور انکشافات بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران کئے گئے،آئین سے بعض مذاہب کو مذہبی رسومات کیلئے شراب کی آزادی کی شق حذف کرنے کیلئے عیسائی، ہندو،یہودی،سکھ اور پارسی مذاہب کے رہنماؤں اور اکابرین سے تحریری رائے مانگ لی گئی۔

چیئرمین کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کی ترمیم پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کہ وہاں اقلیتوں کی آزادی کوکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ترمیم پاکستان کے خلاف سازش بھی ہو سکتی ہے، اقلیتی اراکین پارلیمنٹ کو خود اس قسم کا بل متعارف کروانا چاہیے۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی چوہدری بشیر ورک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کمیٹی اراکین کو وفاقی وزراء کے اختیارات میں اضافے، ججز کی تعیناتی کی عمر 45سال سے کم کر کے 40سال کرنے اور انتظامی مجسٹریٹس کی بحالی کے بارے میں 29ویں آئینی ترمیم کے بارے میں بریفنگ دی۔

کمیٹی اراکین کو آگاہ کیا گیا کہ 29ویں ترمیم کے تحت کابینہ کسی بھی وزیر کو کسی معاملے میں با اختیار بنا سکتی ہے،تاہم اراکین کی رائے تھی کہ مخصوص حالات، مخصوص وقت کیلئے کسی مخصوص معاملے میں وزیر کو با اختیار بنایا جا سکتا ہے۔

ترمیم کو مزید واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ متعلقہ معاملے میں کسی وزیرکو مستقل طورپر اس کا اختیار مل جائے اور وہ مستقل بنیادوں پر اس پریکٹس کو جاری رکھے۔ کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے پر ایک بار پھر یہ آئینی ترمیم موخر ہو گئی۔

وزیر قانون نے کمیٹی اراکین کو مزید بتایا کہ چاروں وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل میں وفاق کو انتظامی مجسٹریٹس کی بحالی کے لئے قانون سازی کا اختیار دیا ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ کسی بھی صوبے کی جانب سے اعتراض اٹھ سکتا ہے، اس لئے اس معاملے پر تفصیلی بحث ضروری ہے، وفاق اپنی حدود تک اس بارے میں قانون سازی کر سکتا ہے۔

وزیر قانون کا خیال تھا کہ جب وزرائے اعلیٰ یہ اختیار وفاق کو دے چکے ہیں تو اعتراض بے معنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان مجسٹریٹس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ ہیں، اسی لئے نئی ترمیم لے کر آرہے ہیں تا کہ جوڈیشل سے متعلق متعلقہ آئینی شقوں میں مجسٹریٹس کی ذیلی شقوں میں ردوبدل کردیا جائے۔

افتخار احمد چیمہ نے کہا کہ انتظامی مجسٹریٹ کی بحالی کی اطلاعات پر پنجاب پولیس نے ہڑتال کی دھمکی دے دی اور وہ اس کی مزاحمت کر رہے ہیں، وزیر قانون نے پنجاب پولیس کی اس مزاحمت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطح پر وزارت سے بھی اس بارے میں رابطہ کیا گیا ہے تاہم چاروں صوبے اس قانون سازی پر آمادہ ہیں، جس کی وجہ سے ہم یہ ترمیم لے کر آئے ہیں۔

کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے پر 29ویں ترمیم کو موخر کردیا گیا، اجلاس کی کاروائی کے دوران وزیر قانون و انصاف نے مصالحتی و ثالثی سے متعلق سینیٹ سے منظور بل کی بھی مخالفت کی اور واضح کیا کہ اس معاملے پر تین الگ الگ بل آ رہے ہیں، ہم ان معاملے کو الگ کررہے ہیں اور تمام بار کونسلوں، بار ایسوسی ایشنز اور قانونی ماہرین سے مصالحتی ایکٹ 1940میں ترمیم پر رائے مانگ لی ہے۔

تنازعات کے متبادل نظام سے متعلق قانون میں بھی سینیٹ سے منظور بل کی شقیں شامل ہیں، اسی طرح ہم ثالثی سے متعلق بھی قانون لے کر آ رہے ہیں۔ کمیٹی میں آئندہ اجلاس میں بل کی محرک ثریا اصغر کو مدعو کرنے کا فیصلہ دیا گیا ہے اور ان کی رائے کی روشنی میں بل کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔

بیشتر اراکین نے بل کو مسترد کرنے کی رائے دے دی ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران جے یو آئی (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان کی اقلیتوں پر بھی شراب کی پابندی سے متعلق آئینی ترمیم پر غور کیا گیا۔

اس کے تحت آئین کی شق 37 میں ترمیم کی جائے گی جس میں کہا گیا ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی مذہبی رسومات کیلئے شراب کی اجازت ہو گی۔ مولانا محمد خان شیرانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی خدا پرست ہے وہاں شراب حرام ہے۔