ایک حکومتی معاشی سروے کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی کے 71فیصد افراد غریب ہیں اس سے قبل آزاد ماہرین معاشیات کا اندازہ تھا کہ غربت کی شرح اسی فیصد ہے مگر حکومتی سروے کے مطابق اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ شرح 71فیصد ہے ۔
آنے والے دنوں میں اس میں کمی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے ، نہ ہی اس حوالے سے بلوچستان میں کوئی قابل ذکرمیگا پروجیکٹ یا معاشی منصوبہ زیر تکمیل ہے جس سے یہ امید لگائی جائے کہ غربت کی سطح کسی حد تک کم ہو سکتی ہے ۔
گزشتہ پچیس سالوں سے یہ امید لگائی گئی تھی کہ کچھی کینال کی تعمیر سے سات لاکھ سے زائد ایکڑ بنجر زمین آباد ہوگی جس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا۔
مگر اب یہ مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں کہ کچھی کینال کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے والا ہے ، دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات روک دی گئیں ہیں اب بگٹی قبائلی علاقے تک کینال کو مکمل کیاجائے گا اور اس کو مزید آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔
جب کچھی کینال کا منصوبہ منظور ہوا تھا تو اس کی لاگت کا تخمینہ 50ارب روپے لگایا گیا تھا چند ماہ قبل اس کی تکمیل تک یہ تخمینہ 130ارب تک پہنچ گیا ہے دوسری طرف حکومت نے کچھی کینال کے لیے اس سال دس ارب روپے رکھے ہیں ۔
ادھر دوسری اطلاع یہ ہے کہ بگٹی قبائلی علاقے تک کے اخراجات کا اندازہ اسی ارب روپے ہے اس کے بعد منصوبہ بند کردیا جائے گا یعنی اب کچھی کی 75لاکھ ایکڑزرخیز زمین کو آباد نہیں کیاجائے گا۔ حکومت غربت کوان غریب لوگوں پر مسلط ہی رکھے گی ۔
بلوچستان کو اناج کے معاملے میں سندھ اور پنجاب کا محتاج رکھا جائے گا اور اس کو کبھی بھی غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ادھر بلوچستان کی ترقی کے لئے 76ارب روپے صرف اور صرف گٹر اسکیموں کے لئے ہیں معاشی ترقی کے لئے نہیں کہ بلوچستان میں زرعی ‘صنعتی، سمندری پیداوار میں اضافہ کیاجائے ۔
یہ تمام فنڈز اجتماعی منصوبوں پر نہیں بلکہ وزراء اور اراکین اسمبلی اس فنڈ کو ذاتی اسکیموں پر خرچ کرینگے ۔
1985کی غیر جماعتی انتخابات سے لے کر تاحال یہ فنڈ اسی طرح خرد برد ہوتا رہا ہے اگر یہ فنڈبلوچستان کی زرعی ‘ صنعتی ترقی کے لئے استعمال ہوتا تو غربت کی شرح بیس فیصد سے بھی کم ہوتی ۔
لیکن یہ حکومت کی پالیسی نظر آتی ہے کہ غربت کی شرح میں مزید اضافہ کیاجائے ۔ چین کی مدد سے دو بجلی گھر بنانے سے بلوچستان کے معاشی حالات میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں اس وقت بھی بلوچستان 2400میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے ۔ بلوچستان صرف 400سے 500میگا واٹ بجلی استعمال کررہا ہے بلکہ بلوچستان میں پاور ٹرانسمیشن لائنز میں یہ استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ 500میگا واٹ سے زیادہ لوڈ اٹھاسکیں ۔
لہذا ان بجلی گھروں کی تعمیر بلوچ عوام کے لئے بے معنی ہے۔ دوسرا بڑا منصوبہ گوادر پورٹ کا ہے اس کے پہلے مرحلے کی تعمیرات مکمل ہونے کے بعد یعنی صرف تین برتھیں تعمیر کرنے کے بعد حکومت پاکستان نے اس منصوبہ پر کوئی قابل ذکر اخراجات نہیں کیں اور نہ ہی دوسرے مرحلے کی تعمیرات شروع کیں ۔ بنیادی ڈھانچہ جوں کا توں ہے جو پرویزمشرف کے دور میں تھا ۔
چینی اس بات پر راضی نہیں کہ گوادر ائیر پورٹ کی تعمیر شروع کی جائے ، جتنا پروپیگنڈا کیاجارہا ہے چینیوں کی اتنی دل چسپی نظر نہیں آتی ۔
شاید گوادر بندر گاہ کی مزید برتھیں ایک صدی میں تعمیر ہوجائیں ۔ چینی ایک ٹریننگ سینٹر بنا رہے ہیں ، اور موجودہ ڈسٹرکٹ اسپتال کو توسیع دے کر 300بستروں کا بنا رہے ہیں ۔
جہاں تک بلوچستان میں گلہ بانی ‘ ماہی گیری ‘ زراعت اور معدنیات کے شعبے ہیں ان میں ایک بھی اہم معاشی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ ان چار شعبوں سے اسی فیصد آبادی اپنا روزگار حاصل کررہی ہے ۔
یہاں صوبائی حکومت صرف ملازمین میں تنخواہیں بانٹ رہی ہے اور ذاتی مراعات فراہم کررہی ہے ۔
ایک دہائی قبل یورپی یونین کی جانب سے گوادر کے قریب جہاز ساری کا بڑا کارخانہ لگانے کی تجویز گزشتہ دس سالوں سے وفاقی وزارت منصوبہ بندی کے سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے ۔
اس منصوبہ پر ساری سرمایہ کاری یورپی یونین کرے گی لیکن پھر بھی اس منصوبہ پر کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ۔
ایسے رویے سے وفاقی حکومت کی بلوچستان کی ترقی کے بارے میں منفی رحجان اور منفی سوچ کی نشاندہی بخوبی ہوتی ہے کہ بلوچستان کو غریب سے غریب تر رکھا جائے ۔