سبی سے خبر آئی ہے کہ 1992ء میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی تعمیر نو اور توسیع پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے لیکن ابھی بھی ہسپتال میںآپریشن تھیٹر سمیت اکثرشعبے غیر فعال ہیں حالانکہ سبی کا از سر نو تعمیر شدہ اسپتال تمام سہولیات سے آراستہ ہے مگر اعلیٰ تربیت یافتہ انسانی وسائل سے محروم ہے ۔
یہاں پر جدید ترین مشینری 1992ء میں نصب کردی گئی تھی ، اسپتال کا درجہ بلند تر کردیا گیا تھا لیکن دو دہائیوں بعد اور کروڑوں خرچ کرنے کے بعد بھی مقامی لوگوں کو صحت کی مناسب سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق صوبائی محکمہ صحت نے سبی اسپتال کو 34ڈاکٹروں سے محروم رکھا ہے سبی اسپتال جو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے صرف سو میل کے فاصلے اور تین گھنٹے کی مسافت پر ہے وہاں 17میڈیکل افسر ‘ 12لیڈی ڈاکٹر ‘ سرجن ‘ پولیس سرجن ‘ جنرل سرجن ‘ اور دیگر ماہرین طب کی اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔
گزشتہ ادوارمیں وزیراعلیٰ اور وزیر صحت نے شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ڈاکٹرز اور ماہرین طب سبی اسپتال میں تعینات کیے تھے لیکن چنددن ڈیوٹی دینے کے بعد وہ سب واپس کوئٹہ چلے گئے۔ وزیراعلیٰ اور وزیر صحت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ سب ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوگئے۔
سبی ایک مرکزی شہر ہے اور بلوچستان کے عقب میں واقع ہے ۔ اس کے قرب و جوار میں آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ دہشت گردی کے واقعات میں لا تعداد زخمی لائے جاتے ہیں ۔ سبی کے پورے اسپتال میں ایک ڈاکٹر ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے اور پیرا میڈیکل اسٹاف فرسٹ ایڈ فراہم کرتاہے ۔
حادثات کے وقت اسپتال کی حالت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے یہی پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹروں کا نعم البدل ہو کر مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے سبی کے اسپتال میں آئی سی یو قائم کیا تھا یعنی انتہائی نگہداشت کا یونٹ، آجکل اس کو میڈیکل اسٹور میں تبدیل کردیا گیا ہے چنانچہ دل کے مریضوں کے لئے کوئی علاج کی سہولت دستیاب نہیں۔
سبی نہ صرف مرکزی شاہراہ پر واقع ہے بلکہ یہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے یہاں صحت کی بعض سہولیات توہیں مگر ڈاکٹر حضرات کی ذاتی اور معاشی مفادات کی وجہ سے مریض ان سے استفادہ نہیں کرسکتے کیونکہ ڈاکٹر حضرات اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر دوسرے علاقوں میں خدمات سرانجام دینے کو تیار ہیں لیکن سبی میں نہیں۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ حکومتی اسپتالوں کے سرکاری ڈاکٹرز بشمول ماہرین کی پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے کیونکہ ان کی پریکٹس ابھی بھی جاری ہے حالانکہ حکومت کی طرف سے حال ہی میں ان کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ وہ ریاست کے ہمہ وقتی ملازم ہیں جزوقتی نہیں ۔
کسی بھی چھوٹے یا بڑے ڈاکٹر کو دولت کمانے کاشوق ہے تو وہ سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے۔
صرف یہی کافی نہیں بلکہ پرائیویٹ اسپتالوں پر پابندی لگائی جائے کہ وہ سرکاری ڈاکٹروں کو جز وقتی ملازمت نہ دیں ’ اگروہ قانون کی خلاف ورزی کریں تو ان کے اسپتال بند کئے جائیں اور ان کو لاکھوں روپے جرمانہ کیاجائے ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہی سینئر ڈاکٹرز جونیئر ڈاکٹروں کو احتجاج پر اکساتے ہیں ، آئے دن جونیئر ڈاکٹرز کسی نہ کسی بہانے کام چھوڑ دیتے ہیں اور سڑکوں پر نظر آتے ہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال ‘ احتجاج اورا نجمن سازی پر سخت پابندیاں لگائی جائیں تاکہ بے روزگاری کی تلوار ان کے سروں پر لٹکتی رہے اور لاکھوں بے روزگاروں کی موجودگی میں وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہ کر سکیں ۔
جو ڈاکٹر انسانیت اور خصوصاً بیمار لوگوں کی خدمت کرے وہ تمام تر مراعات کا حقدار ہے ۔
آخر میں یہ بات ضروری ہے کہ صحت کی سہولیات فراہم کرنا صرف اور صرف ریاست کی ذمہ داری ہے سرکاری اسپتالوں کو اتنا بہتر اور اچھا بنایا جائے جس سے پرائیویٹ اسپتال بند ہوجائیں ۔ تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں صحت کی مکمل سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ دوردراز کے لوگ کوئٹہ کا رخ نہ کریں ۔