|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2017

کوئٹہ: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس جناب ثاقب نثار نے کہا ہے کہ دہشتگردی پاکستان کو کمزور کرنے اور امن وامان کو تباہ کرنے کی سازش ہے اس سازش کو ناکام نہیں بنایا تو آئندہ آنے والی نسلوں کو کچھ نہیں دے پائیں گے۔ 

دہشتگردی کا تعلق پاکستان کے وجود سے ہے ، علیحدگی کے بعد بھی دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر ایک خوشحال اور پرامن ملک بنے۔سانحہ آٹھ اگست کے شہدا تاریخ رقم کرگئے، بزدل دہشت گردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا، شہداء کی قربانیوں کی بدولت ملک میں امن قائم ہورہا ہے ۔

ہمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کو حوصلے کے ساتھ ایک قوم ہوکر لڑنا ہے، ہر شخص اور ہر ادارے کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سانحہ آٹھ اگست کے بعد بلوچستان بار مفلوج ہوگئی، صوبے کے نوجوان وکلاء کی تعلیم و تربیت کیلئے بار اور بنچ نے ملکر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ میں 8اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ خودکش حملے میں شہید ہونیوالے 56وکلاء کی یاد میں بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، بلوچستان ، پشاور ، گلگت بلتستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان، پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ، چاروں صوبوں کی بار کونسلز ، بار ایسوسی ایشن سمیت ملک بھر کی وکلاء تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے کہا کہ سانحہ آٹھ اگست کے بعد زندگی میں پہلی بار ماتم ہوتا ہوا اپنی نظروں سے دیکھا ،ایک ایک گھر گیا ،والدین اور بچوں سے ملا تو وہ جذباتی کیفیت دیکھی جو بیان کرنا مشکل ہے ، جن کے گھر والے جن کے پیارے اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑے پہن کر اپنے کام کیلئے اپنی روزی کمانے کیلئے نکلے تھے وہ گھر واپس نہیں پہنچے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے وہ کپڑے اتارنا نصیب نہیں ہوا لیکن اُن کے درجات بلند ہو گئے ۔

کچھ شہداء کی صف میں شامل ہو گئے اوراس ملک اس قوم پر قربان ہو گئے ،ایک نئی تاریخ قائم کر گئے اورایک جذبے کی مثال بنے ۔زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،یہ اس کرہ ارض پر سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اگر یہ زندگی ہے تو آپ کیلئے تمام زندگی کی نعمتیں میسر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اپنے جانے والوں کو بھولنا مشکل ہوتا ہے ،وہ چلے جاتے ہیں لیکن اُن سے آپ کا تعلق ختم نہیں ہوتا ۔میں بوڑھا ہو گیا ہوں ،میری والدہ کا 1979میں اوروالد کا 2011میں انتقال ہوا ،آج بھی میں اُن کو ہر لمحہ یاد رکھتا ہوں ۔

چیف جسٹس نے تقریب میں شہید وکیل نور الدین رخشانی ایڈووکیٹ کی کمسن بیٹی کی رلادینی والی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کاش آج میری تقریر سے پہلے انعم نور کو یہاں نہیں بلایا گیا ہوتا ، میری ساری سوچ اُس بچی کی باتوں کے گرد گھوم رہی ہے ۔ میں اُس بچی کو دیکھتا ہوں تو بحیثیت ایک منصف اعلیٰ اس ملک کے میں کیا جواب دوں کہ کہاں گئے ہیں تمہارے والد ۔کیوں یہ سسٹم کیوں یہ ملک تمہارے بابا کی حفاظت نہیں کر پایا۔ میں اُس بچی کے ذہن کو اور آلودہ نہیں کرنا چاہتا لیکن صرف اتنا کہوں گا کہ بنا والدین کے زندگی گزارنا کتنی مشکل ہے اور اور اُس کے نتائج کیا ہوتے ہیں یہ صرف وہ جانتا ہے جو اُس محبت سے محروم ہوتا ہے ۔

یہ صرف انعم نور کی کہانی نہیں اس طرح کے بہت سارے بچے ہیں جب نو اگست کو میں کئی گھروں میں جا رہا تھا تو وہاں پر مجھے ایک بزرگ بھی ملے جن کے بیٹے شاید بیرسٹر تھے اور اُن کا نام بیرسٹر ندیم تھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں تو اب یہ سوچ رہا تھا کے میرا بیٹا میری تدفین کرے گا لیکن افسوس کہ مجھے اُس کی تدفین کرنی پڑ رہی ہے ۔

یہ باتیں لفاظی نہیں ہے میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں ،میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی ہے کہ میں اس اندو ناک واقعے پر تعزیت اور مذمت کر سکوں ۔اس سانحے نے نہ صرف لوگوں سے اُن کے پیاروں کو بھی چھین لیا بلکہ اس بار کی خوشیاں بھی چھن لیا ۔ بار اور بینچ ایک جسم کے دو حصے ہیں ۔ اس بزدلانہ واقعے نے بار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہمارے جسم کا ایک حصہ اب بقایا نہیں رہا ۔

جب جسم کا ایک حصہ الگ ہوجاتا ہے وہ جسم کو مفلوج کر دیتا ہے ۔ میں بلوچستان کی بار کو آج ایک مفلوج بار کہتا ہوں ۔ اس خلا ء کو پر کرنے میں وقت لگے گا ۔وکیل ایک دن میں نہیں بنتا اُسے بننے کیلئے بڑا وقت اور تجربہ چاہئے ۔ ڈگری حاصل کرنے سے وکالت نہیں آتی ایک اُستا دکی شاگردی کرنے سے وکالت آتی ہے ۔ محنت کرنے پڑتی ہے ۔مجھے نہیں پتہ کہ جب اُستاد چلے جائیں تو آنے والی نسل کو سکھانے والا کون رہے گا ۔ چند لوگ بقایا نظر آتے ہیں مجھے میں اُن سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ لوگ آئیے اس بار میں جو دوست اب رہ گئے ہیں جنہوں نے اس مشعل کو لے کر چلنا ہے ان کی رہنمائی کیجئے ان کی تربیت کیجئے تاکہ وہ حصول انصاف کیلئے لوگوں کی مد د کر سکیں۔ 

یہ جو دہشت گردی ہے یہ ایک بد قسمت پہلو ہے اور جب میں سوچتا ہوں تو میری نظر میں دہشت گردی کا تعلق پاکستان کے وجود سے ہے ۔ یہ اس طرح کہ پاکستان کی تخلیق دو قرمی نظریے پر ہوئی ۔ سر سید احمد خان شاید سب سے پہلے مدبر تھے جنہوں نے اس نظریے کو ظاہر کیا کہ دو قومیں ایک مسلمان اور ایک دوسری جن کا میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ 

مسلمان قوم شاید اس لئے پیچھے ہے کہ اُن کی تعلیم نہیں ہے اور انہوں نے اعلیٰ تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی ۔پھر یہ خواب حضرت علامہ اقبال نے دیکھا اورایک فلسفہ دیا اور اس کی تعبیر کی جدوجہد قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ یہ ملک بغیر قربانیوں اور محنت کے حاصل نہیں کیا گیا ۔

بے شمار لوگ اس ملک کے بننے کے دوران شہید اوربے گھر ہوئے لیکن دشمن علیحدگی کے بعد اب بھی نہیں چاہتا کہ یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ایک خوشحال اور پر امن ملک ہو۔ میں کوئی سفارتکار یا سیاستدان نہیں لیکن دہشتگردی کے تانے بانے آپ ملیں گے کہ یہ ایک سازش ہے ۔

یہ پاکستان کو کمزور کرنے کی اور اس میں امن کو تباہ کرنے کی ایک سازش ہے ۔اگر ہم نے اس سازش کو کامیاب ہونے دیا تو ہم اپنی آئندہ آنے والی نسل کو کچھ نہیں دے پائیں گے ۔کوئٹہ کا وقعہ میرے بھائیوں کے ساتھ میرے اپنوں کے ساتھ میری برادری کے ساتھ ہوا ہے لیکن اگرغور کریں تو یہ پہلا یا واحد واقعہ نہیں ۔دہشت گردی کے واقعات ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہوئے ہیں۔

پشاور میں معصوم بچوں کو شہید کیاگیا ان کی کسی سے کیا دشمنی نہیں تھیں۔ لاہور میں چند ماہ پہلے اور پھر چند ہفتے قبل واقعات ہوئے کئی لوگ شیہد ہوئے ۔ہمیں اس جنگ کو لڑنا ہے اورحوصلے کے ساتھ لڑنا ہے ۔اس جنگ سے ہمیں گھبرانا نہیں ،ہمیں کمزور نہیں پڑنا ،یہ جنگ ساری قوم کو لڑنی ہے ،ہر آدمی نے اُس میں اپنا ایک کردار ادا کرنا ہے اپنا حصہ ڈالنا ہے آپ کو حصہ ڈالنا ہے ،مجھے ڈالنا ہے ،اداروں کو حصہ ڈالنا ہے ،معلومات جمع کرنے والے ، تحقیقات اور تفتیش کرنیوالے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حصہ ڈالنا ہے ،معاملہ جب عدلیہ میں آتا ہے تو عدلیہ کو بھی حصہ ڈالنا ہے ہمیں سوچنا ہے کہ کیا ہم اپنی اپنی بساط اپنی اپنی توفیق کے مطابق اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔

یہ ایک سوال ہے جو میں اپنے آپ سے بھی پوچھتا ہوں اور آپ کیلئے بھی چھوڑ رہا ہوں۔ دہشت گردی کے محرکات کیا ہیں وہ ایک لمبی بحث ہے لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ کسی حد تک دہشت گردی میں کمی ضرور ہوئی ہے ۔یہ ایک مشترکہ جدوجہد اور مشترکہ قربانیوں کا نتیجہ ہے جس میں سب سے بڑا حصہ کوئٹہ کے وکلاء کا حصہ ہے ۔یہ تو ایک مثبت پہلو ہے ۔ہم مزید تفصیلات میں نہیں جاسکتے کہ دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے ۔ اب آگے بلوچستان کے حوالے سے اور شہداء کے لواحقین کو درپیش مسائل کے حوالے سے کیا کرنا ہے۔

جہاں تک اہلخانہ کے معاوضے کا مسئلہ ہے تو پیسہ کسی کی جان کا نعم البدل نہیں ہے تاہم معاوضے کے مسائل اگلی سماعت میں سنیں گے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی رپورٹ بہت تفصیلی رپورٹ ہے یہ جائز شکایت رہی کہ شاید اُس پر لگاتار سماعتیں نہیں ہوئیں لیکن اب سماعت شروع ہو گئی اور میری اس بارے میں بنچ کے سربراہ جناب محترم آصف سعید خان کھوسہ سے بات ہوئی ہے انہوں نے بتایاکہ اُس رپورٹ کی کافی تعمیل ہو گئی ہے جزوی رہ گئی ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کریں گے اور انشاء اللہ جو غیر تعمیلی حصہ ہے وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ عدلیہ ہی مکمل کروائے گی ۔

ہمارے ججز ہمارے بنچ ہماری عدلیہ اپنا ہرممکن کردار ادا کرے گی۔ عدالتوں کی سیکورٹی سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کی جانب سے توجہ دی گئی کہ عدالتوں کی سیکورٹی کیلئے پلان بننا چاہئے تھا م۔ ہم پہلے سے اس معاملے پر وزارت داخلہ سے رابطے میں ہیں اور اس کے بارے میں ہم نے دو فل کورٹ میٹنگز بھی کیں ۔

امریکہ میں ایک مارچلنگ کا سسٹم ہے ایک آزاد ادارہ ہے جو کہ کورٹس اور ججز کی سیکورٹی دیکھتا ہے وہ کسی کے ماتحت نہیں ہوتا اورکسی کا محتاج نہیں ہوتا ،ہم بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اگر پورے پاکستان میں نہیں تو کم از کم تو کسی حد تک ہم ماڈل کے طور پر اس طرح کا ادارہ جو ہمارے ماتحت ہو قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔جو کورٹ کی سیکورٹی اُن ماڈل لائنز پر ترتیب دے جو کہ آج کی ضرورت ہے لیکن میں ایک چیز واضح کردوں کہ یہ عام حالات نہیں ہیں ۔

عام حالات میں کورٹ کی سیکورٹی اور اُس کے تقاضے مختلف ہیں لیکن آج ایسے حالات ہیں جس میں ہمیں یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون کس لباس میں کس حد تک داخل ہو سکتا ہے ۔بعض اوقات وکلاء چیکنگ کے مسائل پر برامناتے ہیں ۔یہ اجتماعی ذمہ داری ہے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ بنچ اور بار کو سیکورٹی کے مسائل پر باہمی تعاون سے کام کرنا ہوگا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سیکورٹی پلان سے متعلق تجاویز پر غور کرینگے۔ کوشش کی جائے گی کہ جامع مکمل پلان مرتب کیا جائے جس کے تحت سیکورٹی کے انتظامات کو اور بہتر اورفول پروف کیا جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی بار بہت مضروب ہوئی ہے ، بہت شدت سے اس پر ضرب آئی ہے۔ جسم کا بہت بڑا حصہ کٹ گیا ہے۔ ہمیں اسے دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ اس تعمیر نو کے عمل میں وقت بھی اور محنت بھی درکار ہے ۔بار اور بنچ نے دونوں نے ملکر کام کرنا ہے۔ ججز نے قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ چند لائرز کو انکریج کرنے کیلئے ججز خلاف ضابطہ فیصلے نہیں دے سکتے تاہم ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ضرور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ججز کو نئے وکلاء کی تعلیم و تربیت کیلئے مدد کریں۔ 

سینئر وکلاء جونیئرز کی سرپرستی اور رہنمائی کریں۔بلوچستان کے نوجوان وکلاء کو پورے صوبے میں مواقع دینے چاہئیں ۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ وفاقی سطح پر اس سلسلے میں کوشش کرینگے۔ انہوں نے تجویز دی کہ کیوں نہ عدلیہ اور بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز ایک بنیادی معلوماتی کتابچہ مرتب کرے تاکہ نئے وکلاء کو سی آر پی سی ، قانون شہادت کے بنیادی اصول پتہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ جانے والے آ نہیں آسکتے۔ آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے بار کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس سلسلے میں مثبت تجاویز پر حکومت کے ساتھ ملکر کام کیا جائیگا ۔

عدالتوں کے مستقبل کی سیکورٹی کیلئے مزید اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ ہر جگہ کی سیکورٹی ضروری ہے،چاہے وکیل ہو ، ڈاکٹر یا کسی اور پیشے کا ۔ ہر جگہ انسان کو محفوظ ہونا چاہیے۔ جان و مال کے تحفظ کی ترجیحات حکومت کی ہونی چاہئیں اور اگر حکومت کی ترجیحات میں کہیں کمی ہوں گی تو اس خلاء کو دیکھیں گے ۔

دریں اثناء چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس محمد نور مسکانزئی ،چیف جسٹس خیبرپشتونخوا جسٹس یحییٰ خان آفریدی ،چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا محمد شمیم نے کہاہے کہ سانحہ 8اگست میں شہید ہونے والے وکلاء کے نامکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے نوجوان وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،8اگست کا واقعہ انصاف کے علمبر داروں پر تاریخ میں ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا تاہم اس کے پیچھے کا فرما عناصر کو اپنے مذمو م مقاصد میں ناکامی ہوئی ہے ،حملے کا مقصد عدالتی نظام کو غیر مستحکم بنا کر انتشار اور فساد کی فضاء کو پروان چڑھانا تھا ،وکلاء شہید ساتھیوں کے نظام عدل کے قیام مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جدوجہد جاری رکھیں ۔

ان خیالات کااظہارانہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں سانحہ 8اگست کے شہداء کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس محمد نور مسکانزئی نے کہاکہ سانحہ 8اگست نوعیت کے اعتبار سے بھیانک اور حییت کے اعتبار سے خوف ناک اور المناک ہے میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہے کہ جس کااستعمال کرتے ہوئے میں اس المناک اور خوفناک واقعہ کی مذمت کرسکوں ،نہ ہی میری زبان میرا ساتھ دے رہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ڈیڑھ عشروں سے وطن عزیز میں افسوسناک واقعات نے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایاگیاہے نہ صرف جنازوں میں دھماکے کئے گئے بلکہ سکولز کے معصوم طلباء ،قانون کے محافظوں وکلاء ،سول سوسائٹی کے افراد سمیت ہر کسی پر وار کئے گئے ہیں۔

8اگست کو قانون کے علمبرداروں پر حملہ کیا گیا جس میں 56وکلاء شہید جبکہ اس سے زیادہ زخمی ہوئے اس حملے کا مقصد عدالتی نظام کو غیر مستحکم کرنا تھا تاکہ فساد کو بڑھایاجا سکے ،انہوں نے کہاکہ سانحہ 8اگست کے واقعہ میں دنیائے انصاف کے نامور سپوت گرائے گئے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے کار فرما عناصر کو مقصد میں کامیابی نہیں ملی اس منحوس عمل کے رد عمل میں جو مثالی یکجہتی اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا گیا وہ قابل تحسین ہے سانحہ 8اگست کے بعد عسکری ،عدالتی ،سول سوسائٹی ودیگر کی جانب سے دہشت گردوں کو بھرپور جواب ملا ۔

انہوں نے کہاکہ دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونیوالوں کو کراچی منتقل کیا گیا ہم جانتے ہیں کہ ان کے زخموں کا مداوا ممکن نہیں لیکن کوشش کرنی چاہئے کہ ملک کی وفاء اور بقاء پر کوئی انچ نہ آنے پائے بحیثیت قوم ہم سب کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوشش کرنی چاہئے ۔

انہوں نے کہاکہ سانحہ 8اگست میں ملوث بعض دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیاہے جبکہ دیگر مطلوب افراد کو انقریب انصاف کے کٹہرے میں لایاجائیگا انہوں نے کہاکہ آج کے دن کو میں شہداء کی برسی سے تعبیر نہیں کروں گا کیونکہ شہید مرتے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم شہداء کے نظام عدل کے قیام کیلئے جاری مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائینگے ،انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے شہداء اور زخمیوں کے خاندانوں سے کئے گئے بعض وعدے پورے کئے گئے ہیں جبکہ دیگر کی تکمیل بھی ہوگی ۔

انہوں نے کہاکہ عدالتوں کی چاردیواری بلندکرنے سے سیکورٹی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس سلسلے میں ہم نے ایک ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جبکہ عدالتوں کی سیکورٹی کیلئے جدید آلات بھی خریدے گئے ہیں جنہیں جلد نصب کیاجائیگا ،انہوں نے کہاکہ ہمیں بحیثیت قوم انصاف کی فراہمی ،آئین اور قانون کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے جدوجہد کرناہوگی ۔

چیف جسٹس خیبرپشتونخوا جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہاکہ مجھے بعض محمد کاکڑ ایڈووکیٹ اور ان کے دیگر درجنوں ساتھیوں کی غیر موجودگی کادکھ ضرور ہے اور ہم خیبرپشتونخوا کے تمام عدالتوں کے ججز کی جانب سے غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ یقیناََ آج کا تعزیتی ریفرنس اور ہماری یکجہتی سے شہداء خوش ہونگے ہم ان کے قربانیوں اور موومنٹ کے دوران دی گئی قربانیوں کو آج یاد کررہے ہیں یہ وکلاء کیلئے ایک ڈیفائننگ موومنٹ ہے ۔

انہوں نے کہاکہ نوجوان وکلاء کو شہداء کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیناہے اس کیلئے انہیں اپنے سینئرز اور بڑوں کی احترام اور سرزمین کی رواداری پر مبنی روایات پر چلنا ہوگا انہوں نے صوبے کے 50نوجوان وکلاء کو مدعو کیا اورکہاکہ وہ خیبرپشتونخواآئے اور وہاں جوڈیشل اکیڈمی سمیت دیگر میں سینئر وکلاء اوردیگر سے سکھیں۔

چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا محمد شمیم نے کہاکہ سانحہ کے بعد وہ کوئٹہ آئے اور شہید اور زخمی ہونیوالے وکلاء کے خاندانوں سے اظہار تعزیت اورہمدردی کی انہوں نے کہاکہ ہم تمام شہداء اور زخمی افراد کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،انہوں نے کہاکہ آج بار اور بینچ کے عہدیداران اور نمائندوں کا اکھٹاہونا اس بات کی غماز ہے کہ تمام درپیش مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے ۔