سینٹ کے چیئر مین میاں رضا ربانی نے ریاستی اداروں کے درمیان مکالمے کامطالبہ کیا تھا یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں شہید وکلاء کی برسی کے موقع پر کہی ۔ اس پر متعلقہ اداروں نے چپ رہنا بہتر سمجھا اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
تمام متعلقہ طبقات کی خاموشی کا یہ مطلب لیا جارہا ہے کہ اس مطالبے کو اہمیت نہ دیں کیونکہ اس کے ڈانڈے صوبائی خود مختاری سے ملتے ہیں پھروفاقی اکائیوں کو زیادہ اختیارات کی بات ہوگی اس لئے ملک کے طاقتور ترین حلقے اور طبقات اس کے مخالف نظر آتے ہیں۔
اس کو ایک دانشورانہ بحث سے زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ وجہ صاف ظاہرہے کہ وہ طبقات اور حلقے طاقتور ہیں اور ملک پر حکمرانی کررہے ہیں خصوصاً سیاستدان زیادہ انہی کی چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں ۔
ایسی صورتحال میں وہ کیوں اپنے اختیارات دوسروں کو دیں، فی الحال یہ ناممکنات میں سے ہے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی چاہے ملک میں خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ خواجہ ناظم کی حکومت کے خاتمے کے بعد پورے ملک پر نوکر شاہی کا قبضہ ہوگیا اس قبضہ میں فوج اور فوج کے سربراہ کی کھلی اور بھرپور حمایت شامل تھی، نوکرشاہی آج دن تک اقتدار پر قابض ہے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اقتدار پر قبضہ کیا ان کے انتقال کے بعد اقتدار اسکندر مرزا کے حوالے کیا گیا تمام وزیر اعظم حضرات ان دونوں افسر شاہی کے نمائندوں کے ملازم کے طور پر کام کرتے رہے۔
افسر شاہی کمالات دکھا تی رہی،اس طر ح دنوں میں وزیر اعظم بدلتے رہے یہاں تک کہ اسکندر مرزا نے راتوں رات اپنی سیاسی پارٹی بنائی اور راتوں رات یہ پارٹی ملک کی حکمران پارٹی بن گئی۔
یہ ریاستی ادارہ اور طاقتور حلقوں کا کمال تھا کہ اسکندر مرزا نے راتوں رات ملک کی حکمران پارٹی بنائی۔ جب نوکر شاہی کا کھیل ختم ہوا تو جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اس تمام دورانیے میں صرف ایک وقت ایسا آیا جب نوکر شاہی پر آفت آئی اورملک دو ٹکڑے ہوگیا ۔فوج اور نوکرشاہی نے ملک کو سنبھالا دینے کی خاطر اقتدار بھٹو کے حوالے کیا اور خود پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ جب بھٹو نے ملک کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا یا تو جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کرلیا بلکہ عدلیہ کو استعمال کرکے اس کو پھانسی پر لٹکادیا۔ اسی دن سے پورا ملک مقتدر قوتوں کے ہاتھوں میں ہے اور یہاں یہ بات کرنا کہ اختیارات کی منصفافہ تقسیم ہو بڑا عجیب لگتا ہے ۔
مقتدرہ کو فی الحال کوئی پریشانی نہیں، پی پی پی کو پہلے ٹھکانے لگادیا گیا ہے اب نواز شریف کو بھی زندگی بھر کے لئے اہل قرار دیا جاچکا ہے چونکہ وہ خود سیاسی رہنماء کے طور پر آسمان سے نازل ہوئے تھے، ان کی سیاست میں دل چسپی کبھی بھی نظر نہیں آئی، وہ حکمرانی بھی بادشاہوں اور تاجروں کی طرح کرتے تھے سیاستدانوں کی طرح نہیں اس لئے نواز شریف کے لئے یہ مشکل بات ہوگی کہ وہ اتنی بڑی اجتماع کو سیاسی طور پر استعمال میں لائیں اور ہجوم کو مطالبات کے تسلیم ہونے تک سڑکوں پر رکھیں اور احتجاج جاری رکھیں یہ انتہائی مشکل کام ہے یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے نہ ہی انہوں نے اپنی مسلم لیگ کو اس لحاظ سے منظم کیا کہ آفات کینزول پر اس کو اپنے بچاؤ کے لئے استعمال میں لائے۔
نفسیاتی طور پر وہ بحث و مباحثہ اور اجلاس کے خلاف نظر آتے تھے، اسی لئے پارلیمان کا رخ ہی نہیں کرتے تھے تو کس طرح تسلسل کے ساتھ اپنی تحریک کو صرف اپنے ہی فائدہ کے لیے استعمال میں لاسکیں گے۔ ویسے بھی مسلم لیگ صرف حکمرانی کے لئے بنائی گئی ہے حزب اختلاف کے لئے نہیں، یہ اجتماع والی جماعت نہیں ہے۔
مسلم لیگی ارکان حکمرانی کی حد تک نواز شریف کے ساتھ تھے اب دیکھتے ہیں کہ پارٹی کب تک اجتماع کرتی رہے گی۔ دوسری بات یہ کہ نواز شریف کو وزیر اعظم کی نوکری دی گئی تھی اب ان کو نوکری سے برطرف کردیا گیا، وجہ حکم عدولی۔