بلوچستان حکومت اور پاک فوج کی جانب سے بلوچستان ایکسیلینس ایوارڈ کا اہتمام کیا گیا جہاں مختلف شعبوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی شخصیات کوایوارڈ سے نوازا گیاجو تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
ماضی میں ہمارے بلوچستان کے ہیروز کو ہمیشہ نظرانداز کیاگیا مگر اس بار ان کے اعزاز میں بہت بڑا فنکشن رکھاگیا اورتمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔
بلوچستان حکومت اور پاک فوج نے بلوچستان کے ہیروز کو اعزاز دیکر بلوچستان کو بھی قابل توجہ سمجھا۔ اس سے قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مختلف شعبوں کے افراد کو ہمیشہ نظر انداز کیاگیا اور وہ اپنی زندگی کے دن کسمپرسی میں گزارتے ہوئے چل بسے۔
مگر اس عمل سے نوجوانوں کو ایک نیا حوصلہ ملا ہے کہ ان کی محنت، جدوجہد اورکاوشیں ضائع نہیں جائینگی۔ اس سے بڑھ کر آگے بھی کچھ ایسے اقدام اٹھانے چاہئیں جہاں بلوچستان اور ملک کا نام روشن کرنے والے افراد کو روزگارودیگر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کی زندگی بہترانداز میں گزرسکے۔
ایوارڈ فنکشن میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری، کمانڈرسدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل عامرریاض، صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی سمیت سول وعسکری حکام نے شرکت کی۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے مگر ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں تعصب، ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر بلوچستان اور ملک کے لئے ایک ہونا پڑے گا تاکہ سخت سے سخت حالات کابھی ہم ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔
انہوں نے کہاکہ آج میڈیاآزاد ہے، امن وامان کی صورتحال ماضی کی نسبت بہتر ہوچکی ہے اور ہم ایک نئی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
انہوں نے بلوچستان کے ہیروز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہاکہ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے ہیروز نے ہر میدان میں اپنا لوہامنواتے ہوئے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کا نام دنیا میں روشن کیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ جبکہ کمانڈرسدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل عامرریاض نے اسپورٹس میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے افراد میں بلوچستان ایکسیلینس ایوارڈ تقسیم کئے۔
یہ غیر معمولی اقدام ہے جس کو ہر شخص سراہارہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ بلوچستان کے ہیروز کوآئندہ بھی یاد رکھتے ہوئے انہیں اعزاز سے نوازاجائے گا اور ان کی معاشی حالات کے سدھار کیلئے بھی پالیسی مرتب کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی اس بات سے ہر ذی شعور متفق ہے کہ آج بلوچستان کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے اور اس کیلئے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ایسابلوچستان بنانا ہوگا جس کے کونے کونے میں تمام بنیادی سہولیات تمام لوگوں کومیسر ہوں چونکہ اب تک یہ اہداف حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے مگر بہترین پالیسی اور چیک اینڈ بیلنس سے ان اہداف کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔
تعلیم، صحت، پانی، گیس سمیت دیگر تمام بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا خاص کر اندرون بلوچستان کے لوگوں کو ہے وہاں جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے یہ مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
بلوچستان میں خاص کر بیروزگاری کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت کافی زیادہ ہے اور یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لوگوں کو روزگار کی فراہمی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں ۔
حتیٰ کہ صوبائی سطح پر جو سرکاری اسامیاں پیدا کی جاتی ہیں انہیں بھی بروقت پُر نہیں کیا جاتا۔ اوپر سے ظلم یہ کہ وفاق میں بلوچستان کے کوٹے کی ملازمتوں پر دیگر صوبوں کے لوگوں کو بلوچستان کا لوکل یا ڈومیسائل ظاہر کرکے بھرتی کیا جاتا ہے۔
نیزصوبے میں مزید روزگار پیداکرنے کیلئے پالیسیوں پر سست روی سے کام جاری ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد بیروزگار ی میں مبتلا ہے یہی نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے ٹوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔۔
ایک امید سی پیک سے وابستہ ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام کو ترجیح دی جائے گی کیونکہ اب تک ہم گوادر کی طرف دیکھتے ہیں تو اب تک وہاں پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا وہاں کے باشندے صاف پانی کیلئے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور وقتاًفوفتاًاحتجاج کرتے ہیں۔
ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان حکومت مسائل کے حل کی طرف توجہ دے تو یقیناًبہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اس کے لیے نیک نیتی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔