چین کے ساتھ جاری کشیدہ ماحول کے درمیان انڈیا نے کہا ہے کہ وہ ڈوکلام تنازع کے باہمی قابل قبول حل کے لیے چين کے ساتھ بات چيت جاری رکھے گا۔
تاہم اس کے ساتھ ہی انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’لداخ جیسے واقعات نہ تو ہندوستان کے حق میں ہیں اور نہ ہی چین کے حق میں۔‘
انڈیا کی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں وزارت کے ترجمان رویش کمار نے کہا: ‘آج میں یہ تصدیق کر سکتا ہوں کہ 15 اگست کو پینگونگ تسو پر ایک واقعہ رونما ہوا جس پر دونوں جانب کے مقامی فوجی کمانڈروں نے بات کی۔ اس قسم کے واقعات کسی کے حق میں نہیں ہیں۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمیں امن و امان قائم رکھنا چاہیے۔’
بہرحال انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ لداخ کے اس مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان کس طرح کی جھڑپ ہوئی تھی۔ پتھراؤ ہوا تھا یا پھر لوہے کے راڈ کا استعمال کیا گيا تھا۔
اس سے قبل انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ چینی فوجیوں نے پنگونگ جھیل کے نزدیک انڈین علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے بعد فوجیوں نے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ’پتھر پھینکے‘ جس سے دونوں اطراف کے فوجی معمولی زخمی ہوئے۔لداخ کے سرحدی علاقوں میں چین اور انڈیا کے درمیان متنازع سرحد کشیدگی کا باعث بنتی ہے
بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی اپنی سرحدی حدود کے اندر تھے۔
رویش کمار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آئندہ ماہ برکس (پانچ ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ کی تنظیم) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی چین جائیں گے یا نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ‘یہ حساس مسئلہ ہے۔ ہم چین کے ساتھ بات چیت کرتے رہیں تاکہ دونوں کے لیے قابل قبول حل تک پہنچا جا سکے۔ سرحدی علاقوں میں امن و امان دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی اہم شرائط ہیں۔’
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ڈوکلام کا تنازع کب ختم ہوگا تو انھوں نے کہا: ‘میں کوئی نجومی نہیں اس لیے پیش گوئی نہیں کر سکتا۔’
گذشتہ روز ترجمان نے بتایا کہ لداخ کے معاملے پر دونوں ممالک کے سرحدی پولیس کمانڈروں نے بات کی ہے۔