|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2017

دوحہ: قطر نے سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال کرلیے۔

قطری وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہر سطح پر اپنے دو طرفہ سفارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ قطری سفیر بہت جلد واپس تہران جائیں گے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اپنے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے قطر نے رواں برس جون میں خلیجی ممالک کے درمیان آنے والے سفارتی بحران کا ذکر نہیں کیا۔

قطر نے گذشتہ برس سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کو سزائے موت دیے جانے کے بعد ایران میں دو سعودی سفارتکاروں کے قتل پر ریاض سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے تہران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ نے بھی قطر کی جانب سے ہونے والی اس پیش رفت کو سراہا ہے۔

گذشتہ برس اپنا سفیر واپس بلانے کے باوجود قطر کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار تھے کیونکہ دوحہ اور تہران خلیج فارس میں قدرتی گیس سے مالا مال حصے میں بھی شراکت دار ہیں۔

قطر، قدرتی گیس کے اپنے ان ذخائر کی بدولت ہی دنیا بھر میں فی کس آمدنی میں سب سے آگے ہے اور اس کی ہی بدولت جزیرہ نما عرب کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ’الجزیرہ‘ کی فنڈنگ کرتا ہے۔

خیال رہے کہ خلیج تنازع کے بعد قطر میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایران نے مدد فراہم کی تھی۔

یاد رہے کہ رواں برس 5 جون کو سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

تاہم دوحہ نے عرب ممالک کی جانب سے قطر پر دہشت گردوں کی حمایت کے الزامات کی تردید کی تھی۔

بعد ازاں 23 جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر کے سامنے سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے قطری نشریاتی ادارے’الجزیرہ‘ کی بندش سمیت 13 مطالبات پیش کیے تھے جبکہ قطر کو ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے 10 روز کی مہلت دی گئی تھی۔

تاہم قطر نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے پیش کی گئی مطالبات کی فہرست مسترد کرتے ہوئے ان مطالبات کو نامناسب اور ناقابل عمل قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ ٹی وی چینل الجزیرہ کی بندش کے علاوہ ایران سے تعلقات میں سردمہری لانا اور قطر میں ترک فوجی بیس کو ختم کرنا بھی 13 مطالبات میں شامل تھا۔

بعد ازاں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ جاری کشیدگی اور تنازع کے تناظر میں قطر نے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا۔