|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2017

صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد پاکستان اعلانیہ یا غیر اعلانیہ حالت جنگ میں داخل ہوگیا ہے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ امریکا کی سربراہی میں بھارت اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف محاذ قائم ہوچکا ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات بھی اسی غیر اعلانیہ جنگ کی کڑیاں نظر آتی ہیں۔

گزشتہ دنوں اور خصوصاً آزادی کی تقریبات کے دوران سیکورٹی اداروں پر حملے ہوئے جن میں بعض اہلکار شہید بھی ہوئے ۔ اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن ملک کے تمام حصوں خصوصاً دارالحکومت کے گرد ونواح میں موجود ہیں ۔

عوام الناس کی مسلمہ رائے ہے کہ ان میں سے بعض تارکین وطن دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں، اکثر خودکش بمبار بھی افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن تھے ۔ 

عوام کی رائے غلط نہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے سیکورٹی کے ادارے بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں ان غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد کوئٹہ اور اس کے گردونواح میں آباد ہیں اس لیے کوئٹہ ایک محفوظ شہر اس وقت تک نہیں بنے گا جب تک یہ غیر قانونی تارکین وطن یہاں موجود ہوں گے۔ 

دوسری جانب حالات بھی ایک خطرناک موڑ تک پہنچ چکی ہیں امریکا ‘ بھارت اور افغان اتحاد کی سربراہی کررہا ہے پاکستان کے خلاف ایک بڑا اتحاد قائم ہوچکا ہے لیکن ابھی تک ریاست اور ریاستی اداروں کے طرز عمل اور سوچ میں تبدیلی کے آثارنظر نہیںآتے ۔

ان کو ا ب بھی یہ امید ہے کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بنے گا اور بھارت سے جنگ کی صورت میں افغانستان کے اندر پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گاحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان بھارت اور امریکا کی گود میں جا چکا ہے ،وہ امریکا کی حکم عدولی نہیں کرے گا بلکہ اب افغانستان اور بھارت کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے تاکہ ان ممالک کا دباؤ پاکستان اور پاکستان کے اداروں پر بر قرار رہے ۔ 

لہذا حکومت سب سے پہلے ریاست اور عوام کی سیکورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیجنے کا انتظام کرے، پہلے تو ان سب کو شہری علاقوں خصوصاً کوئٹہ اور اس کے گردونواح سے نکالے اور کیمپوں میں رکھے اور وہاں سے ان کو جلد سے جلد ملک بدر کیاجائے۔ 

سیکورٹی خدشات کے علاوہ اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن بلوچستان کی کمزور معیشت پر بھی بوجھ ہیں ۔ایک اطلاع کے مطابق افغان دس لاکھ ملازمتوں یا ذرائع روزگار پر قابض ہیں ، ہر بڑے سرکاری اسپتال میں اسی فیصد مریض افغان ہیں مقامی لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے ، یہ لوگ ہماری سڑکیں ’ پانی ‘ بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کو بغیر قیمت ادا کیے استعمال میں لا رہے ہیں ۔

دوسری جانب ہماری نا اہل حکومت سرکاری وسائل کو خرچ کررہی ہے تاکہ ان غیر قانونی وطن کی رجسٹریشن کی جائے یعنی پاکستان کی دولت ایک فضول کام میں خرچ ہورہی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے ۔

ضرورت تو یہ ہے کہ رجسٹریشن کا عمل چھوڑ کر ان کو فوری طورپر نکالا جائے، اوران کو افغانستان واپس بھیجا جائے، ان کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہ کی جائیں تاکہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن واپس جائیں۔ 

ان کا وطن افغانستان ہے پاکستان نہیں، پاکستان افغانستان کی کالونی نہیں جہاں وہ آ کر آقا کی طرح رہائش پذیر ہوں۔ ان کی واپسی کے بعد بڑی حد تک سیکورٹی کے مسائل حل ہوجائیں گے، شہری سہولیات پر دباؤ کم ہوگا۔ضروری یہ ہے کہ حکومت عوام کے اس دیرینہ مطالبے پر توجہ دے او ر اس پر عمل کروائے تاکہ پاکستان کی کمزور معیشت کو حالت جنگ میں سہارا مل جائے ۔