پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کومشترکہ فوجی گروپ کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد مشترکہ سرحدوں پر روز روز کے معاملات کو بخوبی حل کرنا ہے۔ یہ ایک اچھی ا ور معقول تجویز ہے جس سے سرحدوں پر کشیدگی میں کمی آئے گی ۔
اگر دونوں ممالک کے فوجی گروپ ایک ساتھ اس مقصد کے لئے کام کریں کہ خطے میں دائمی امن قائم ہو اور دراندازی کو روکا جائے تو اس کے فوائد دونوں ممالک حاصل کر سکیں گے۔ ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ سے دہشت گرد فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ نے یہ تجویز اپنے افغان ہم منصب کو دی جو تاجکستان میں چار ملکی فوجی گروپ کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تھے جہاں کانفرنس سے ہٹ کر دونوں فوجی سربراہوں کی ایک الگ ملاقات ہوئی جس میں اس تجویز پر بات چیت ہوئی ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق افغان فوج کے جنرل نے اس تجویز کا خیر م قدم کیا ہے ۔
ملاقات میں دیگر مسائل بھی زیر بحث آئے ، پاکستان نے افغان وفد کو بتایا کہ پاکستان یک طرفہ طورپر سرحدوں پر باڑ لگانے کاکام جاری رکھے ہوئے ہے اس کا مقصد غیر رجسٹرڈ گزر گاہوں سے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کو بند کرنا ہے ۔
خصوصاً ان علاقوں میں باڑ لگانے کا کام زیادہ تیز رفتاری سے جاری ہے جہاں سے دہشت گرد افغان سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔
راجگال کا علاقہ جو درہ خیبر میں واقع ہے اس کو باڑ لگا کر بند کردیا گیا ہے،اس سے قبل اس علاقے میں تمام دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو طویل فوجی کارروائی میں تباہ کردیا گیا ۔
اس قسم کی کارروائیاں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بھی کی گئیں تھیں وہاں سے بھی دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے تباہ کردئیے گئے ہیں اور اکثر دہشت گرد فوجی کارروائی میں ہلاک کردئیے گئے ۔
البتہ بعض دہشت گرد افغانستان فرار ہوگئے جہاں پر انہوں نے اپنے نئے اڈے افغان سرزمین پر نہ صرف قائم کیے بلکہ وہاں سے وہ پاکستان پر حملے بھی کررہے ہیں ۔
پاکستان کی حکومت نے بارہااس پر احتجاج کیا اور ان ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کی مگر افغان اور امریکی افواج نے ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا ۔
ملا فضل اللہ اپنی گروہ کے ساتھ آئے دن پاکستان پر حملے کرتا رہا ہے ، وہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتا رہا ہے بلکہ پاکستان کے مسلح افواج پر بھی حملے کیے ان کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت افغانستان اور ناٹو افواج ان ٹھکانوں کو تباہ کریں تاکہ خطے میں امن کے امکانات زیادہ روشن ہوں۔ امریکا اوراس کے ہم نوا ممالک صرف پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں کہ طالبان کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں ہیں جو افغانستان کے اندر حملوں کے بعد پاکستان میں آ کرپناہ لیتے ہیں۔
امریکہ نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ ملا فضل اللہ کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے اور وہ آئے دن پاکستان پر حملے کرتا رہتا ہے اور خطے کے امن کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے ۔
افغانستان نے اس بات کو کئی بار تسلیم کیا کہ ملا فضل اللہ اور اس کے گروپ کے دہشت گرد ملک میں موجود ہیں لیکن حکومت افغانستان یا امریکی افواج ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہیں ۔
ایسی صورت میں خطے میں دائمی امن یک طرفہ طورپر قائم نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے پہل امریکی افواج اور افغانستان کریں اور ان دہشت گردوں کا صفایا کریں جو افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔
پاکستان پہلے ہی فوجی آپریشنز کے ذریعے ملک بھر سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرکے ان کا صفایا کیا ہے، اب ملک میں دہشت گردوں کا کوئی منظم اڈہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کے اسلحہ کے انبار یا تربیتی مراکز ہیں ان سب کا مکمل صفایا کیاجا چکا ہے ۔ اب افغانستان کی باری ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں کا صفایا کرے ۔