ٹوکیو / سیئول / واشگٹن: تمام تر عالمی دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو پچھلے تجربات سے بھی زیادہ سنگین قرار دیا جارہا ہے۔
خبروں کے مطابق یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب تجربے کے دوران داغا گیا شمالی کوریائی میزائل جاپان کی فضائی حدود سے گزرتا ہوا سمندر میں جا گرا اور تباہ ہوگیا۔
جاپانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے میزائل کا یہ تجربہ مقامی وقت کے مطابق علی الصبح کیا جبکہ یہ میزائل جاپان کے مشرقی علاقے کی فضاؤں سے گزرتا ہوا سمندر میں جا گرا۔ جاپان کی جانب سے اس میزائل کو گرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی البتہ میزائل گزرنے پر متعلقہ علاقے میں خطرے کے سائرن بجادیئے گئے اور لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ احتیاطاً تہہ خانوں میں چلے جائیں۔
مزید خبروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مذکورہ شمالی کوریائی میزائل کا اصل ہدف غالباً جاپانی سمندری حدود کے قریب ہی کہیں واقع تھا لیکن وہ اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں پھٹ گیا اور تین بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس لحاظ سے یہ ایک ناکام میزائل تجربہ تھا۔
دوسری جانب ایک امکان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ شمالی کوریا کا یہ تجربہ کسی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا تھا لیکن امریکی اداروں کا کہنا ہے کہ اب تک شمالی کوریا ایسا کوئی میزائل تیار نہیں کرسکا ہے جو امریکا تک پہنچ سکے۔
شمالی کوریا کے مذکورہ میزائل تجربے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شنزو آبے نے اسے غیر معمولی خطرہ قرار دیا ہے؛ جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی کوریا کا میزائل تجربہ ایک سنجیدہ اور سنگین خطرہ ہے جس جو خطے میں امن اور سلامتی کو تباہ کر رہا ہے۔ جاپانی وزیراعظم کے بقول اُن کا ملک اپنی عوام کی جانوں کو محفوظ بنانے کےلیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔
جاپانی کابینہ کے چیف سیکریٹری نے بھی اس تجربے کو ’’ناپسندیدہ اور شدید خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جاپان اس کے ردعمل میں اہم اقدامات کرے گا۔
اندازہ ہے کہ اس تجرباتی میزائل کا راستہ (ٹریجکٹری) جاپان اور شمالی کوریا کے درمیان جاری کشیدگی کو بھڑکائے گا۔ اُدھر امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے امریکیوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے اس میزائل تجربے سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں جبکہ امریکی افواج اس بارے میں مزید معلومات جمع کر رہی ہیں۔
جاپان نے اس معاملے پر بحث کےلیے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلوانے کی درخواست کردی ہے جبکہ امریکا نے بھی اس کی تائید کردی ہے۔ ممکنہ طور پر اس ہنگامی اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر اور زیادہ اور مزید سخت پابندیاں لگائی جائیں گی۔