|

وقتِ اشاعت :   August 30 – 2017

سندھ کی منتخب حکومت نے مردم شماری کے نتائج کو انتہائی نفرت کے ساتھ مسترد کردیا اوراس کی اطلاع وفاقی حکومت کے گوش گزار کرا لی کہ مردم شماری کے نتائج سندھ کے عوام کو قابل قبول نہیں ۔

اس اعلان کے بعد پاکستانی فیڈریشن کے ایک اہم ترین وفاقی اکائی نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کردیا جس کے بعد مردم شماری کے نتائج متنازعہ ہوگئے ہیں لہذا مردم شماری کے اعداد و شمار کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوچکے ہیں جس کے نتائج پورے پاکستان کے لئے قابل قبول نہ ہونے کے خدشات جنم لے چکے ہیں۔ بلکہ یہ قانونی اور آئینی طورپر بھی متنازعہ بن گئے ہیں اخلاقی اعتبار سے اب وفاقی حکومت پر لازم ہوجاتا ہے کہ ان کی فوری منسوخی کا اعلان کرے ۔ 

ملک غلام محمد کے گورنر جنرل بننے اور ملک کے مکمل اختیارات سنبھالنے کے بعد مغربی پاکستان میں سندھ اور بلوچستان ‘دونوں کمزور ترین وفاقی اکائیوں کو زبردست طریقے سے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ۔ ان میں سب سے بڑا ہتھکنڈا ان کے وجوود پر حملے تھے ۔ پوری کی پوری غیر منقسم ہندوستان سے آنے والوں کا رخ سندھ کی طرف موڑ دیا گیااور ایوب خان کے مارشل لاء تک سندھ پر مہاجروں کی حکمرانی مسلط کی گئی افسران بھارت سے آئے اور انہوں نے انتظامیہ کو استعمال کیا ۔

اس مقصد کیلئے ون یونٹ بنایا گیا جس سے سندھ اور بلوچستان کو پاکستان کے نقشے سے ہٹا دیا گیا۔اس لیے ون یونٹ کی شدید ترین مزاحمت سندھ اور بلوچستان میں ہوئی اور بالآخر ون یونٹ توڑ دیا گیا اور تاریخی صوبے بحال ہوئے ۔1983ء کی ایم آر ڈی تحریک کے بعد سندھ اور بلوچستان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں تیزی لائی گئی اور مہاجر تحریک کو سندھ پر مسلط کردیا گیا، ایسی خفیہ کارروائیاں کی گئیں جس کا مقصد ایم کیو ایم کو سندھ کی طاقتور ترین پارٹی بناناتھا ۔

اس کے لئے جماعت اسلامی ‘ جے یو پی پر حملے ہوئے اور ان کو توڑا گیا تاکہ ایم کیو ایم کو سندھ کے عوام پر مسلط کیاجائے ۔ سندھ کے تمام بڑے شہر بشمول کراچی ‘ حیدر آباد اور سکھر ایم کیو ایم کے حولے کیے گئے ۔ سندھی عوام کو یہاں سے طاقت کے ذریعے بے دخل کیا گیا ۔ جنرل پرویزمشرف نے ایم کیو ایم کی طاقت کو دوام بخشا۔ ایم کیو ایم چار حصوں میں تقسیم ہونے کے باوجود بھی مضبوط ہے اور سندھ کی تقسیم کے ارادے سے دستبردار نہیں ہوا ۔ 

اس تمام سیاسی قوت کا سرچشمہ مقتدرا ہے ،وہ سندھ کے عوام کی بجائے ایم کیو ایم کے دھڑوں کی سرپرستی کررہی ہے جو پاکستان کے وجود پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے ۔ معلوم نہیں کہ مردم شماری میں فوج کو کیوں ملوث کیا گیا، ابھی تک سرکاری سطح پر اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ سندھ کے فیصلے کے بعداس مردم شماری کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔لہذا موجودہ سیکورٹی کی صورت حال میں یہ بہتر ہوگا کہ مردم شماری کے نتائج کو داخل دفتر کیاجائے ۔ 

اس کے نتائج کے ذریعے سندھیوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت بنانے کا قانونی اعلان نہ کیاجائے ۔ ابھی تک بلوچستان سے بھی رد عمل آنا ہے۔ سندھ پر مہاجر اور پنجابیوں کی مسلسل یلغار اور بلوچستان پر افغان غیر قانونی تارکین وطن کی یلغار کے مقاصد ایک ہی معلوم ہوتے ہیں کہ سندھیوں اور بلوچوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت بنا دیاجائے جس کے لئے ریاست اور اس کے ادارے مشکوک کوائف کے لوگوں کی سرپرستی کررہے ہیں ۔

اس کا ثبوت 2013ء کے الیکشن کے نتائج ہیں جن کے ذریعے ایک لسانی پارٹی کو قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں تحفے میں دی گئیں جس کا واحد مقصد بلوچ کی احساس قومیت کو نقصان پہنچانا تھا، جس کا فائدہ لسانی پارٹی نے تو خوب اٹھایا لیکن حقیقتاًاس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بلوچوں کے دل میں پہلے سے موجودناراضگی میں مزیداضافہ ہوا کہ اسے سیاسی طور پر بھی موقع نہیں دیا جارہا کہ وہ اپنا کردار ادا کرسکے ۔ 

بلوچ اور سندھیوں کی حد درجہ ناراضگی پاکستان اور اس کی سیکورٹی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک کا دفاع کرنے والے عوام ہیں جن کی امداد سے ہی ملک کا اچھی طرح دفاع کیاجا سکتا ہے ۔