ملک کے شہری عید قربان ایسے وقت منا رہے ہیں جب ملک مشکلات کا شکار ہے ۔ تاہم عید قربان ایک اہم ترین موقع ہے کہ ہم تجدید عہد کریں اور ملک ،قوم اور غریب عوام کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔
یہ حضرت ابراہیم کی سنت ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں ۔ حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم سے اپنے اولاد کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کیا، آج ہم یہ دن ان کی یاد میں مناتے ہیں ، قربانی کرتے ہیں اور ساتھ فقرا ء،مساکین میں گوشت اور کھانا تقسیم کرتے ہیں دوسرے الفاظ میں اس قربانی کا مقصد غریب تر اور کم وسائل والے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرناہے۔
پاکستان میں یہ روایت ہے کہ زیادہ لوگ صدقہ ‘ خیرات اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور غریب لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور ان اداروں کی امداد کرتے ہیں جو غریبوں کو مفت خدمات پہنچاتے ہیں ۔ خاص کر معروف رفاعی تنظیمیں اور اسپتال جہاں پر غریب مریضوں کا مفت علاج کیاجاتا ہے ۔
لیکن بعض سیاسی اور لسانی تنظیموں نے حالیہ سالوں میں اپنی جماعت کو زیادہ طاقتور بنانے کے لئے قربانی کی کھالیں جمع کیں ۔ چونکہ کراچی کی وہ لسانی تنظیم مسلح تھی اس کے کارندوں نے بندوق کی نوک پر دوسرے فلاحی تنظیموں کے جمع شدہ کھالیں چھیننی شروع کیں چونکہ وہ کئی دہائیوں تک سندھ پر مسلط کیے گئے تھے اس لئے انہوں نے انتظامی مشینری اور پولیس کو منع کیا تھا کہ لسانی تنظیم کے مسلح گروہ کے خلاف کارروائی ہو ۔
موجودہ حکومت میں ان کو اقتدار سے الگ کر لیا گیا تو کھالیں چھیننے کا سلسلہ بند ہوگیا ۔اب زیادہ تر کھالیں محلے اور علاقے کے مساجد اور فلاحی تنظیموں کو دی جاتی ہیں ۔ مسلح تنظیموں کو کھالیں جمع کرنے سے منع کردیا گیا ہے ۔
حالیہ دنوں میں ان مسلح تنظیموں کی ایک طویل فہرست اخبارات میں چھپی جس سے عوام الناس کو آگاہ کیا گیا کہ ان تنظیموں پر پابندی عائد ہے اور وہ کھالیں جمع نہیں کر سکتے ۔البتہ فلاحی تنظیموں کو کھالیں جمع کرنے کی اجازت ہے امید ہے اب حق ‘ حقدار کو ملے گا۔ دوسری جانب پاکستان مشکلات کا شکار ہے ۔
حالیہ دنوں میں امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا اورپاکستان پر بے پناہ الزامات لگائے کہ پاکستان دہشت گردوں کا اڈہ بن گیا ہے اور یہاں دہشت گردوں کو پناہ دی گئی ہے۔ پاکستان ان تمام الزامات کی تردید کرتاہے کہ وہ افغانستان کی خانہ جنگی میں کسی طرح ملوث ہے ۔
امریکا نے اسکے ساتھ بھارت کو افغانستان کے امن میں کردار ادا کرنے کی اعلانیہ دعوت دی ہے
۔ اس کے علاوہ امریکا نے اپنی سربراہی میں بھارت اور افغانستان سے مل کر ایک محاذ قائم کیا ہے ۔
اس کا مطلب یہ کہ افغانستان کی خانہ جنگی نہیں رہی، اس کو اب خطے کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے اب امریکا اور بھارت مل پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے اور اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
چنانچہ یہ پاکستان کے عوام پر لازم ہے کہ وہ تجدید عہد اس موقع پر کریں کہ وہ متحد ہو کر امریکا اور بھارت کے مشترکہ چالوں ‘ سفارتی اور فوجی دباؤ کا سامنا کریں گے کسی بھی قیمت پر امریکی اور بھارتی عزائم کو اس پورے خطے میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
اس کے لئے وزیر خارجہ عنقریب دوست ممالک اور دوسرے ممالک کا دورہ کریں گے اور ان پر حکومت پاکستان کی پالیسی کی وضاحت کریں گے اورا سکا تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کے افغانستان میں کسی قسم کے عزائم ہیں۔
پاکستان ایران اور افغانستان کو اپنا برادر ملک سمجھتا ہے اور ان کیساتھ ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہے تاکہ خطے میں امن مستحکم ہو اور امریکا کی اجارہ داری کا خاتمہ کیاجائے ۔
اس سلسلے میں امید ہے کہ ایران کی حکومت پاکستان سے بھرپور تعاون کرے گی یوں ایک مشترکہ جدوجہد سے پورے خطے میں جلد امن قائم ہوجائے گا۔