|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2017

شریف خاندان کی بادشاہت اس ملک سے ختم ہوچکی ہے ،نواز شریف حکمران مطلق نہیں رہے ، یہ غلط فہمی ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت دراصل نواز شریف کی بادشاہت کا تسلسل ہے ۔

اشارے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم زیادہ بہتر اور اچھی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اس کے چند ایک فیصلے اسی طرف اشارہے دے رہے ہیں ،وہ نواز شریف کا احترام ضرور کرتے ہیں مگر ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کرنا چاہتے۔

ابتداء میں یہ تعلق بر قرار رہے گا اور آہستہ آہستہ نواز شریف سیاسی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے ۔ان تمام باتوں کے اشارے نواز شریف کو سالوں پہلے دئیے گئے تھے مگر انہوں نے اپنی ڈگر نہیں بدلی اور آخر کار ان کو زندگی بھر کے لئے نا اہل ہونا پڑا ۔ اگر ان کا طرز عمل یہی رہا تو امکان ہے کہ نیب کے مقدمات میں ان کو جیل کے علاوہ جائیداد کی ضبطگی اور جرمانہ کی سزائیں بھی ملیں گی ۔

اس لیے نواز شریف نہیں بلکہ پورا خاندان اس حقیقت کو تسلیم کرے اور سیاست چھوڑ کر اپنی بزنس پر توجہ دے اور مزید اربوں ڈالر کمائے ۔ نیب نے چار مقدمات کی منظوری دی اور ان کو عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت کی منظوری کے بعد چند دنوں میں ان پر کارروائی شروع ہوجائے گی ۔

ان میں سے تین مقدمات شریف خاندان بشمول سابق وزیراعظم نواز شریف ‘ ان کے دونوں بیٹوں اور بیٹی مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر اور ایک ریفرنس اسحاق ڈار کے خلاف ہے کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے حیثیت سے زیادہ دولت کے انبارلگادئیے ۔ چونکہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی نگرانی میں احتساب عدالت چلائے گی اس لیے اس میں تاخیری حربے استعمال نہیں کیے جا سکتے ۔

چنانچہ ان مقدمات کی کارروائی روز وشب چلے گی تاکہ مقدمہ کا فیصلہ جلد سے جلد ہوسکے۔ شریف خاندان ‘معلوم ہوتا ہے کہ تکبر کا شکار ہے انہوں نے مجبوری کی حالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کیا اور اپنے عہدے سے دستبردار ہوگئے لیکن جلسے اور جلوس نکا ل کرنواز شریف ،ریاست اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈال کر سیاست میں دوبارہ آنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

اپنی پوری سیاسی زندگی میں انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کرکے دولت کمائی اور سیاسی معاملات پر کوئی توجہ نہیں دی، نہ پارٹی بنائی اور نہ ہی پارٹی کو مقبول بنایا ۔ اس کی مثال سندھ ہے جہاں پر نواز شریف کے پاس سید غوث علی شاہ ‘ لیاقت جتوئی اور ممتاز بھٹو جیسے سابق وزرائے اعلیٰ موجود تھے ان سب نے پارٹی صرف اور صرف نواز شریف کے طرز عمل کی وجہ سے چھوڑی ۔

ان کو یہ شکایت تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے سالوں نہ صرف ان کو نظر انداز کیا بلکہ ان کے فون تک سننا گوارا نہیں کیا ۔ ا س کے مقابلے میں ان کو چاپلوس زیادہ پسند تھے جن کو انہوں نے صدر اور گورنربنایا ۔ اگر وہ ذرہ برابر سیاسی آدمی ہوتے اور تاجر نہیں ہوتے تو ان تین سندھ کی بڑی ہستیو ں کو نظرانداز نہیں کرتے ،ان کی قدر کرتے اور اپنی پارٹی کو سندھ میں مضبوط کرتے ۔سوائے ایک شاہ محمد شاہ کے ان کی پارٹی میں کوئی شناسا سیاستدان نہیں ہے ۔

ان کی سیاست میں عدم دلچسپی ان کی تجارت اور دولت کمانے میں دلچسپی کا اشارہ دیتا ہے جس آدمی کی پالیسی یہ ہو تو وہ عوام سے کٹ جاتا ہے وہ کسی بھی ریاستی ادارے سے ٹکر لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔یہ بات داتا دربار کے جلسے میں ثابت ہوگئی کہ ان کی مقبولیت لاہور میں بھی نہیں ہے ۔

اس جلسے میں صرف چند ہزار افراد تھے کوئی بڑا جلسہ نہیں تھا ۔داتار دربار کا جلسہ ناکام جلسہ تھا جس سے انکی مقبولت کی پول کھل گئی ۔ اب ان کے لئے صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ سیاست سے توبہ کر لیں دوبارہ وزیراعظم بننے کا خواب چھوڑ دیں اور اپنے اصلی اور بنیادی کام پر توجہ دیں کہ کس طرح سے زیادہ سے زیادہ دولت بغیر ریاستی اختیارات کے کمائی جا سکتی ہے۔ ان کا عوام کے ساتھ کوئی رغبت اور لگاؤ نظر نہیں آتا، لہذا وہ سیاست میں مس فٹ ہیں ۔