ہمارے حکمرانوں کو تھوڑی سی فکراس وقت لاحق ہوئی جب سیکورٹی کے خطرات اس ملک پر منڈ لا رہے ہیں ۔ اس سے قبل ان کو ملک اور قوم کا خیال نہیں آیا، اگر ہمارے حکمران صرف دولت و شہرت کے دلدادہ نہ ہوتے او راچھی حکمرانی کی روایات قائم کرتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کوئی بیرونی ملک ہم کو آنکھیں دکھاتا۔
وجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے خوش تھے کہ حکمرانوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ وہ زیادہ تر وقت زیادہ سے زیادہ دولت کمانے میں لگے رہے ۔
ان حکمرانوں نے عوام اور اس ملک پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا جب انہوں نے حکمرانی کا حق تاجروں ‘ مفاد پرستوں ،چاپلوسوں کے حوالے کیا ۔ ان کو تمام تر سہولیات اور مدد فراہم کی کہ انتخابی عمل میں دھاندلی کریں اور خود، ان کے رفقاء انتخابات میں کامیاب ہو کر ایسی حکومتیں وفاق اور صوبوں میں بنائیں جہاں صرف اور صرف لوٹ مار کا راج ہو۔ سرکاری خزانہ اور قومی دولت کولوٹا جائے۔ ملک غلام محمد سابق گورنر جنرل سے لے کر آج تک حکمرانی نو کر شاہی کے قبضہ میں ہے ۔
سیاستدانوں کو حکومت چلانے کی اجازت کبھی نہیں ملی البتہ ان سب کو اور ان کے حواریوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت دی گئی ۔ حقیقی حکمرانی نو کر شاہی نے کی ہے اس لیے عوامی مسائل کچھ زیادہ ہوگئے اور اب تو حکمرانوں میں ان کو حل کرنے کی استطاعت ہی باقی نہیں رہی ۔ ملک کی معیشت بالکل تباہ ہوگئی ہے، جعلی کاروبار اور جعلی اشیاء کی پیداوار اور اس کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
آئے دن پنجاب فوڈ اتھارٹی کے لوگ جعلی اشیاء بر آمد کرتے ہیں ان کو تباہ کرتے ہیں لیکن یہ خبر ابھی تک کسی بھی اخبار کی زینت نہیں بنی کہ ان جعلی اشیاء تیار کرنے والوں کو کسی بھی عدالت سے کوئی عبرت ناک سزا ہوئی ہو ۔ ملک میں بے روزگاری ‘ عدم اطمینان ہے ۔لوگوں کو شاہراہوں پر گولیاں مار کر ہلاک کیا جاتا ہے اوراس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔
بلوچستان میں وکلاء ‘ پولیس کے زیر تربیت افسران ‘ جے یو آئی کے رہنماؤں اور شاہ نورانی پر خود کش حملوں کو تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ ان واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کا مطالبہ ہے کہ اصلی ملزمان کا پتہ لگایا جائے اور ان کو سزائیں دی جائیں۔
ملک میں بے روزگاری عام ہے صرف بلوچستان کی چھوٹی سی آبادی والے صوبے میں بیس لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں ۔بلوچستان کی حکومت نے اعلان کیا کہ 35ہزار نوجوانوں کو سرکاری روزگار فراہم کیاجائے گا اس بات کو دو سال پورے ہونے کو ہیں لیکن کسی کو بھی روزگار فراہم نہیں کیا گیا نہ ہی موجودہ حکمرانوں کا کوئی ارادہ ہے کہ وہ مستقبل میں بھی لوگوں کو روزگار فراہم کریں گے۔
بلوچستان کو صنعتی اور معدنی دولت کی ترقی کی نعمت سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان کو ہر قیمت اور ہر حال میں پسماندہ ہی رکھا جائے گا ۔
کچھی کینال ‘ گوادر پورٹ اس کی زندہ مثالیں ہیں گوادر پورٹ میں پندرہ سالوں بعد تین کرین نصب کیے گئے ۔ کچھی کینال کو بگٹی سرزمین تک محدود کردیاگیا۔
اب کچھی کینال اور سبی کے علاقے میں سات لاکھ ایکڑ زمین سیراب نہیں ہوگی ۔ انکاڑہ کور ڈیم تباہ کردیاگیا اس کی دوبارہ بحالی کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے 54کروڑ کی امداد ضائع ہوگئی ۔
گوادر میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ کی رقم حکومت بلوچستان، بی ڈے اے اور محکمہ صنعت کی جانب سے ادا کردے گی ، اس کو بھی تقریباً پندرہ سال کا عرصہ ہونے والا ہے ، بلوچستان کے اربوں روپے خرچ ہوگئے ۔
پانی صاف کرنے کے پلانٹ کا پتہ ہی نہیں کیونکہ دونوں سابق وزراء ریاستی اداروں کے پسندیدہ لوگ ہیں ۔ادھر نیب بھی صرف اور صرف نا پسندیدہ لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے، پسندیدہ لوگوں کو ہاتھ نہیں لگاتی ۔
اتنے بڑے پیمانے پر معاملات میں عدم دلچسپی کا کوئی علاج نہیں خصوصاً حکومت اور ریاستی ادارے معاملات کو بہتر کرنے کی کوئی خواہش بھی نہیں رکھتے ۔