نیشنل ہائی وے اتھارٹی بورڈ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کی بڑی شاہراہوں پر 9ایمر جنسی سنٹر قائم کیے جائیں گے ۔ یہ سینٹر دانسر‘ مینازبازار ‘ قلات ‘ سوراب ‘ وڈھ ‘ کوراڑو ‘ ناگ ‘ ونگو اور ہوشاب میں قائم ہونگے، یہ تمام سنٹرز وسطی ،شمالی اور مغربی بلوچستان میں قائم کیے جائیں گے۔
ان تمام ایمر جنسی سنٹروں میں ڈاکٹر ‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ایمبولینس کی سروس فراہم کی جائے گی تاکہ حادثات کے مقامات پر جلد سے جلد پہنچا جاسکے اور شرح اموات کو کم سے کم کیاجاسکے۔ ان کا نام Emergency Respons Centersہو گا۔این ایچ اے اپنے ہی وسائل سے یہ تمام سہولیات بلوچستان کے دوردراز شاہراہوں پر فراہم کرے گی۔ موٹر وے کے بعض حصوں میں این ایچ اے یہ سہولیات پہلے سے فراہم کررہی ہے ۔
موٹر وے پولیس ان ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں ۔ تاہم بلوچستان میں ایمر جنسی سنٹروں کے قیام کا مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی اور حادثات کی روک تھام ہے ۔عوامی رائے عامہ نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اکثر ہائی و ے اور شاہراہیں بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہورہے ہیں اور بڑی تعداد میں مسافروں کی اموات اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
اس قسم کی سہولیات فراہم کرنا یقیناً باعث ستائش ہے مگر زیاد ہ ضروری بات یہ ہے کہ این ایچ اے ان شاہراہوں کی مرمت جنگی بنیادوں پر کرے ۔آر سی ڈی ہائی وے کے بعض سیکشن پر اس قسم کے ایمر جنسی سنٹرز کے قیام کا اعلان نہیں کیا گیا جہاں پر زیادہ حادثات رونما ہوئے اور لوگوں کی زیادہ تعداد میں جانیں ضائع ہوئیں خصوصاً نوشکی سے لے کر تفتان تک آر سی ڈی ہائی وے تباہی اور بربادی کا شکار ہے ۔
دہائیوں سے اس 500کلو میٹر کے سیکشن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بلوچستان کو ہائی وے کی تعمیر اور ترقی میں این ایچ اے نے بالکل نظر انداز کر رکھاہے ۔ سالانہ بجٹ میں اس کے لئے ناکافی رقم رکھی جاتی ہے حالانکہ بلوچستان واحد اہم ترین صوبہ ہے جس کی سرحد یں ایران ‘ افغانستان کے علاوہ خلیج کی طرف بھی جاتی ہیں جہاں پر مستقبل کی تجارت کا دارومدار ہوگا۔ بلکہ این ایچ اے کو یہ منصوبہ بندی کرنی چائیے کہ گوادر کی بندر گاہ کو وسطیٰ ایشیائی ممالک کے ریلوے نظام اور سڑکوں سے منسلک کیا جائے ۔ گوادر پورٹ کو پہلے نوکنڈی اور پھر زاہدان سے ملانے کا کام کیا جائے ۔
وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مواصلاتی رابطہ نہ ہونے کی صورت میں گوادر کی بندر گاہ خلاء میں معلق ہوگی اور اگراس کے لئے زمینی راستہ نہیں تعمیر ہوا تو اس بندر گاہ کا کوئی تجارتی اور معاشی فائدہ خطے کے ممالک کو نہیں ہو گا۔ اس لیے این ایچ اے کو بلوچستان میں ایک زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چائیے تاکہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہو اور اس کو قرض اور امداد کی ضرورت نہ پڑے ۔
اس لیے این ایچ اے گوادر کی منصوبہ بندی میں ریلوے حکام کے ساتھ رابطہ میں رہے اور ایک جامع منصوبہ بنائے تاکہ گوادر ایک انتہائی فعال بندر گاہ کاکردار ادا کرے اور خصوصاً افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کی تمام بین الاقوامی ضروریات کو پورا کرے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ این ایچ اے کو بلوچستان کی اہم ترین شاہراہوں کی تعمیر ‘ ترقی اور دیکھ بھال زیادہ موثر انداز میں کرنا چائیے ۔
قومی شاہراہوں پر ایمر جنسی سنٹر
وقتِ اشاعت : September 14 – 2017