نواز شریف کے دور اقتدار سے ہی مسلم لیگ میں زبردست اختلافات کی خبریں آرہی تھیں ۔ پارٹی میں ایک سے زیادہ گروہ تھے ،اکثر کو نواز شریف نے حسب عادت نظر انداز کیا ہوا تھا، بعض اراکین نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کے خلاف ناراضگی کا بر ملا اظہار بھی کیا تھا ۔
نواز شریف کی طرز حکمرانی سعودی بادشاہوں جیسی تھی ۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کا رخ ہی نہیں کیا ،ان کو کابینہ اجلاس بلانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ مشترکہ مفادات کونسل سے ان کو شدید نفرت تھی اس لیے اس کے اجلاس شاذو نادر ہی طلب کرتے تھے اورپارٹی جلسہ کو مشترکہ مفادات کونسل کی اجلاس سے زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔
اس طرح سے وہ صوبوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ۔ قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا اور پرانے قومی مالیاتی ایوارڈ کو نافذ العمل رکھا، اس طرح سے انہوں نے چھوٹے صوبوں میں بددلی پھیلائی اور عوام کو مایوس کیا ۔
اس کا اپنے پارٹی رہنماؤں سے متعلق رویہ غیر مناسب رہا، پارٹی کے لوگ ناراض تھے بعض مسلم لیگ کے رہنماء یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ کے ستر کے قریب قومی اسمبلی کے اراکین ناراض ہیں وہ کسی بھی وقت پارٹی چھوڑ سکتے ہیں اور مرکزی قیادت کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں ۔ چونکہ ان کے مفادات حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، فی الحال وہ غیر یقینی کی صورت حال میں اس طرح کا نازک فیصلہ نہیں کر سکتے جس سے ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو ۔
یہ ایک تصدیق شدہ حقیقت ہے کہ نواز شریف نے موجودہ وزیر اعظم کو بیس ایسے اراکین قومی اسمبلی کی فہرست دی ہے جو کسی بھی وقت پارٹی کے خلاف بغاو ت کر سکتے ہیں ۔وزیراعظم کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان قومی اسمبلی کے اراکین کا خاص خیال رکھیں جن کو نواز شریف نے صرف اور صرف اپنے ذاتی طرز عمل سے بد ظن کیا تھا۔
اس لیے وزیراعظم آئے دن ہر ڈویژن کے قومی اسمبلی کے اراکین کو گروہ در گروہ بلاتے ہیں اور ان کی شکایات سنتے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کتنے ناراض اور بد ظن قومی اسمبلی کے اراکین کوراضی کرتے ہیں ان تمام ناراضگیوں اور بد ظنی کی سزا کلثوم نواز کو انتخابات میں شکست کی صورت میں ملنے کے امکانات ہیں ۔
کلثوم نواز کو پی ٹی آئی کے امیدوار سے خطرہ نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے ہے جو نواز شریف سے ناراض ہیں اور اب ان کے مخالف بن گئے ہیں ۔ مریم نواز کی وجہ سے این اے 120میں کسی طرح کی ہلچل پیدا کردی گئی ہے مگر یہ صرف ایک نمائشی اور پروپیگنڈا کا عمل ہے جس کا مقصد رائے عامہ کو متاثر کرنا ہے ۔
جب کہ ووٹنگ کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جو کلثوم نواز کے حق میں نہیں جاتا۔ناراض تمام رہنماء مسلم لیگی ہیں ان کا تعلق پی ٹی آئی یا پیپلزپارٹی سے نہیں ہے وہ ذاتی عناد اور بغض کے باعث کلثوم نواز کے خلاف منفی ووٹنگ کرسکتے ہیں بلکہ تصدیق شدہ ذرائع کے مطابق وہ ہر حال میں کلثوم نواز کو انتخابات میں ہر اکر بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔
یہ بات عام ہے کہ ان عناصر کا چوہدری برادران سے مسلسل رابطہ ہے مسلم لیگ ق نے پہلے ہی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے ایک منصوبے کے تحت یہ تمام ناراض اراکین کلثوم نواز کو انتخابات میں ہرانے کی کوشش کریں گے ۔
اگر ایسا ہوتاہے تو نواز شریف اور اس کے خاندان کو بہت بڑا نقصان پہنچے گاجس کے باعث یہ خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے بے دخل ہوجائے گا۔ اختلافات اتنے شدید ہیں کہ دونوں گروہوں میں صلح کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں ان کو صرف الیکشن کے دن کا انتظار ہے کہ وہ اپنا قرضہ چکائیں ۔