|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2017

توقع کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں ایران ‘ پاکستان اور شمالی کوریا کو براہ راست یا بلواسطہ سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔

ایران اور شمالی کوریا کو نام لے کر اور واضح الفاظ میں دھمکیاں دیں گئیں ، البتہ پاکستان کا نام لیے بغیر پرانے الزامات دہرائے گئے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دے رہاہے اور اس کی سرزمین دہشت گردی کی فروغ کے لئے مبینہ طورپر استعمال ہورہی ہے ۔

پاکستان ان تمام الزامات کو سختی کے ساتھ رد کرتارہا ہے کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں اب تک اس کے ہزاروں شہری اور سیکورٹی اہلکار شہید ہوچکے ہیں ۔ معاشی طورپر اس کے نقصانات کا اندازہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ ہے ۔

لہذا پاکستان پر سیاسی وجوہات کی بناء پر الزامات لگا ئے جارہے ہیں ۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے امریکا اس بات پر بضد نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے ایران کی معاشی‘ سیاسی اور فوجی قوت کو توڑ ا جائے اور اس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو ملک کے اندر اور خصوصاً وسطی ایران تک محدود رکھا جائے اور دوسرے ممالک میں اس کے اثرات کو ختم کیاجائے کیونکہ ایران امریکی مفادات کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے ۔

بلکہ ایران براہ راست امریکی مفادات کا نہ صرف مخالف ہے بلکہ اس کی فوجی قوت کے ساتھ مزاحمت کررہا ہے ۔

لہذا امریکی اور ایرانی مفادات کا تصادم جاری ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ معاملہ کس حد تک جائے گا۔

ایرانی ذرائع خصوصاً ایرانی میڈیا کے مطابق مغربی ممالک امریکا ‘ برطانیہ اور فرانس کے تین طیارہ بردار جہاز خطے میں موجود ہیں ۔ ان کی امدادکے لئے امریکا کے6-کے لگ بھگ بحری جنگی جہاز گلف میں موجود ہیں ۔

آئے دن ایرانی بحریہ اور امریکی جنگی جہازوں کا آمنا سامنا رہتا ہے اور اشتعال انگیز کارروائیوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں ،یہ معمولی اشتعال انگیزیاں کسی بھی وقت کسی بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہیں ۔

جہاں تک شمالی کوریا کی بات ہے وہ دنیا بھر میں تنہائی کی راہ پر خود گامزن ہے ، وہ دنیا کی رائے عامہ سے لا پرواہ ہے ۔

یہاں تک کہ چین جو روز اول سے شمالی کوریا کا فوجی اتحادی ہے اس نے بھی شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں ۔

لیکن روس اور چین اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ امریکا شمالی کوریا پر بڑے پیمانے پر حملہ کرے اور شمالی کوریا کو مکمل طورپر نیست و نابود کر دے ۔ روس اور چین اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے بلکہ امریکا خود چین اور روس کی مرضی اور منشاء کے خلاف کوئی یک طرفہ فوجی کارروائی کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔

روس اور چین نے جنگی مشقیں شمالی کوریاکی سرحد پر کیں یوں ایک واضح پیغام امریکا کو دیا گیا کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے باز رہے ۔تاہم شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے علاوہ چھوٹی موٹی تادیبی کارروائیوں کی گنجائش موجود ہے تاکہ خطے میں امریکا کی ناک اونچی رہے اور اس کو مزید ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

ادھر چین اور روس مسلسل شمالی کوریا کا دفاع کررہے ہیں اور ساتھ ہی کوریا کے حکمرانوں پر دباؤ بھی بر قرار رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کوئی بڑی کارروائی نہ کرے بلکہ ایٹمی دھماکوں اور میزائل کے تجربوں سے باز رہے تاکہ خطے میں مزید کشیدگی نہ پھیلے ۔

روسی اور چینی میڈیا سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی کوریا پر ان دونوں ممالک کا اثر ورسوخ قائم ہے ۔کورین صدر کوئی اچھنبے کی کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اپنی قوت اور حیثیت منوانا چاہتے ہیں وہ بھی دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال کر۔

شمالی کوریا پر سخت اقتصادی پابندیاں نافذ ہیں جس سے ملک کے اندر بغاوت کا خطرہ ہے۔ شاید امریکا کی کوشش یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے ذریعے شمالی کوریا میں حکومت مخالف مظاہرے کرائے جائیں اور اس طرح سے حکومت پر دباؤ بڑھایاجائے ۔