|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2017

وزیراعظم پاکستان اپنے ٹیم کے ہمراہ آج کل نیو یارک میں ہیں جہاں وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے گئے ہیں ۔

جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے قبل انہوں نے امریکی نائب صدر پنس ‘ ایران کے صدر حسن روحانی ‘ ‘ ترکی کے صدر اردگان اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے الگ الگ ملاقاتیں کرچکے ہیں جن میں باہمی دلچسپی کے امور زیر غور آئے ۔

امریکی صدر کے تلخ و تند تقریر کے بعد امریکی نائب صدر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات میں اس بات کا اشارہ دیا کہ آئندہ ماہ امریکا کا ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور پاکستانی حکام اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرے گا ۔وفد اس بات کا جائزہ بھی لے گا کہ پور ے خطے میں قیام امن کے کیا امکانات ہیں اور اس میں کس حد تک پیش رفت ہوئی ہے تاکہ علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کیاجائے ۔

شاید اسی لیے امریکا نے اس بات کو ترجیح دی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری ختم کی جائے اورمذاکرات کا سلسلہ بحال رکھا جائے۔ یہ ایک بڑی خوش آئند پیش رفت ہے کہ امریکا تعلقات میں سرد مہری کو توڑنا چاہتاہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا تعاون حاصل رہے ۔

لیکن امریکا نے پاکستان سے کچھ زیادہ توقعات رکھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب اس نے بھارت کو افغانستان میں زیادہ اہم کردار ادا کرنے کو کہا ہے ۔

امریکا کی یہ کوشش ہے کہ بھارت کو افغان خانہ جنگی میں ملوث کیاجائے اوراس کو زیادہ اہم کردار سونپا جائے ۔ یہ طرز عمل پاکستان کو قابل قبول نہیں ہوگاکیونکہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تنازعات ہیں اور دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ اس کے باوجود بھارت کو خطے کی سلامتی میں اہم ترین کر دار دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔

صدر ٹرمپ نے دو مواقع پر اپنی تقاریر میں پاکستان پر سنگین الزامات لگائے ، پہلے بھرپور الزامات اس وقت لگائے گئے جب صدر ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی کا اعلان کیا ۔اس پالیسی اعلان کے بعد پاکستان کے علاقوں پر دو ڈرون حملے بھی کیے گئے جن سے کچھ ہلاکتیں ہوئیں ۔

اس کے بعد صدر ٹرمپ نے حالیہ جنرل اسمبلی کی تقریر میں بلواسطہ طورپر پاکستان کا نام لیے بغیر الزامات لگائے ۔ایران اور شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی دی اور پاکستان پر الزامات لگائے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے اور ان کی معاونت کررہا ہے ۔

پاکستان اور ایران نے صدر ٹرمپ کے ان الزامات کی تردید کی اور پاکستان نے دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا کہ دہشت گردوں کا پاکستان کے اندر کوئی اڈہ نہیں ہے ، ان سب کا صفایا ہوچکا ہے ، تمام دہشت گرد افغانستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔

سیکرٹری وزارت خارجہ کا یہ خیال ہے کہ امریکا او رپاکستان کے تعلقات میں سرد مہری ختم ہوگئی ہے ۔ اگر ایسی بات ہے تو امریکا کو اپنے رویے سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پرآگئے ہیں اور پاکستان کی خواہش پر بھارت کو کوئی اہم کردار نہیں دیا جائے گا جس سے پورے خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم ہوجائے یا وہ خطے کے کو توالی کا کردار ادا کرے۔

تاہم یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی کہ امریکا کے ساتھ تعلقات معمول پر رہیں، اس سے مذاکرات کے تمام دروازے کھلے رہیں اور امریکی اندیشوں اور شکوک کودور کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ خطے میں دیر پا امن قائم رہے۔

ایران اور امریکا کے مفادات کا ٹکراؤ پاکستان کے معاملات سے زیادہ شدید نظر آتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے شام سے فارغ ہونے کے بعد امریکا یہ اشارہ دے رہا ہے کہ وہ جلد ایران کا رخ کرے گا ۔

گلف میں کوئی معمولی واقعہ کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔ امریکا نے یہ اشارے بھی دئیے ہیں کہ عنقریب ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ مسترد کیا جائے گا۔

اگر امریکا نے ایسا کیا تو ایران کی جانب سے اس کو اعلان جنگ تصور کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے ایران سے امریکا کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہیں خصوصاً ایران کی جانب سے شام کو فوجی امداد ‘ یمن کے حالات اور کردستان کے معاملے میں ایران اور ترکی کا سخت رویہ امریکا کو ایران کے ساتھ مزید کشیدگی کی جانب لے جائے گا۔

پاکستان میں تشویش کی وجہ ایرانی بلوچستان کا میدان جنگ بننے کے خطرات ہیں ۔