|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2017

وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایران کو تجویز دی ہے کہ گوادر بندر گاہ کو ریل اور سڑک کے ذریعے چاہ بہار سے ملایا جائے ۔یہ بات انہوں نے ایرانی صحافیوں کے وفد سے ملاقات کے دوران بتائی۔

یہ ایک اچھی خبر تھی لیکن افسران اور نوکر شاہی نے عوام الناس کو اس کی خبر نہ ہونے دی ۔

بہر حال وزیراعلیٰ نے یہ بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے ہوئے ہیں اور دستاویزات اور سفارشات کا تبادلہ ہوا ہے ۔

اور اس بات کی قوی امید ہے کہ ساحل مکران کی تیز رفتار ترقی کے لئے دونوں ممالک تعاون کریں گے۔

گوادر ایک بہت بڑی بندر گاہ ہے جس کی ساحل کے قریب گہرائی 90میٹرز کے لگ بھگ ہے اس لیے بہت بڑے بڑے تجارتی جہاز یہاں لنگر انداز ہو سکتے ہیں اور ایرانی تجارتی مال کیلئے گوادر کی بندر گاہ کو استعمال میں لایاجا سکتاہے ۔

چونکہ ایرانی حکومت نے ایرانی بلوچستان میں سڑکوں اور ریل کا ایک وسیع جال بچھایا ہے جس کی وجہ سے ایرانی بلوچستان شاہراہوں کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں سے ملا ہواہے جس کی وجہ سے گوادر سے چاہ بہار یا ایران کے دیگر علاقوں میں تجارتی سامان کی ترسیل آسانی سے کی جا سکے گی ۔

زاہدان کو پہلے ہی ریل کے ذریعے دنیا کے ریل کے نظام کے ساتھ منسلک کردیاگیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے لائن موجود ہے جس کو گوادر اور چاہ بہار کی بندر گاہ سے ملانے سے تجارتی سامان کی ترسیل زیادہ تیز رفتاری سے ہوسکے گی ۔

زاہدان اور کرمان کے درمیان ریلوے لائن بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے جبکہ حکومت پاکستان نے ستر سالوں سے کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے سیکشن کو نظر انداز کیا ہوا ہے ، اس پر گزشتہ ستر سالوں میں ایک روپے کی بھی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ انگریز نے جو سرمایہ کاری کی اس کوو قت گزرنے کے ساتھ تباہ ہونے دیا گیا اور درجن بھر سے زائد ریلوے اسٹیشن بوسیدہ عمارات میں تبدیل ہوگئے ۔

حالانکہ یہ وہ واحد راستہ ہے جو پاکستان کو دنیا کے دیگر ممالک سے ملاتا ہے خصوصاً ایران اور ترکی سے۔

اسکے علاوہ منصوبہ بندی کے ساتھ ریلوے ٹریک کو تعمیر کیا جائے تو وسط ایشیائی ممالک کی تجارتی ضروریات کو گوادر کی بندر گاہ پوری کر سکتی ہے ۔ جبکہ وفاقی حکومت جانے کس پالیسی کے تحت گوادر بندر گاہ کی تعمیر میں سست رفتاری کو بر قرار رکھاہوا ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادر بندر گاہ کو بین الاقوامی ریلوے لائن سے ملا یاجائے یا کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے لائن سے ملایاجائے تاکہ گوادر پورٹ کی بین الاقوامی افادیت میں اضافہ ہو اور ایران بھی مجبور ہوجائے کہ وہ چاہ بہار سے زیادہ گوادر کی بندر گاہ پر انحصار کرے۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے منصوبہ ساز ریلوے لائن کو دوسری سمت لے جارہے ہیں جہاں نہ کوئی مسافر ہے اور نہ ہی تجارتی پیمانہ پر کوئی کارگو‘ صرف اور صرف بد نیتی کی بنیاد پر ریلوے لائن کو دوسری اور مخالف سمت کی طرف لے جارہے ہیں تاکہ گوادر کا منصوبہ زیادہ تاخیر کا شکار ہو۔

ان تاخیری حربوں کے کئی ثبوت موجود ہیں مثلاً پینے کے پانی کے بغیر بندر گاہ کیسے کام کرے گا ۔ صنعتی اور تجارتی بنیاد پر پانی کی سپلائی کو چھوڑیں یہاں پینے کو پانی نہیں ہے ۔

حکومت بلوچستان پینے کے پانی کے لئے روزانہ کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے ۔ گوادر پورٹ کی تعمیر 2002ء میں شروع ہوئی ، 17سالوں کی طویل انتظار کے بعد گوادر پورٹ کے لئے تین کرین آئے ۔

حکومت نے گوادر پورٹ کے دوسرے مرحلے کی تعمیرکی منظوری گزشتہ سال دی تھی ابھی تک اس پر کام شروع نہیں ہوا، نہ ہی اس کے آثار نظر آر ہے ہیں ۔ دوسری جانب چین اس بات پر آمادہ نظر نہیں آتا کہ گوادر میں بین الاقوامی ائیر پورٹ کی تعمیر جلد شروع کرے ۔

شاید چینی کمپنیاں اپنی حکومت کی طرف سے ہدایات کا انتظار کررہی ہیں جو موجودہ صورت حال میں اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہیں ۔