کشمیریوں نے 1947سے اورخصوصاًگزشتہ ڈیڑھ دو سال سے بھارت کے خلاف علم بغاوت بڑی شدت سے بلند کیا ہوا ہے ۔
تحریک کی اس تازہ لہر میں اب تک سو سے زائد نوجوان شہید اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کا ہر باشندہ اس جدوجہد میں شریک ہے روزانہ ہڑتالیں اور مظاہرے اس بات کا مظہر ہیں کہ کشمیر میں بغاوت اپنے آخری حدود کو چھو رہی ہے۔
روزانہ پولیس اور فوج کی عوام پر فائرنگ جاری ہے لوگ ہلاک ہورہے ہیں ، زخمی ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود جدوجہد جاری ہے۔
بھارتی فوج اور پولیس طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے ، چرے والی گولیوں کے استعمال سے ہزاروں مظاہرین کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی مکمل طورپر معطل ہیں ، کاروبار زندگی دوبارہ شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے ۔
اس لیے بھارتی حکومت نے الزامات کا رخ پاکستان کی طرف کردیا ہے اورہرمعاملے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرارہاہے ۔ اس پر بھی اکتفا نہیں بلکہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے ۔
آئے دن بھارتی افواج فائرنگ اور شیلنگ کرتے رہتے ہیں جس سے بڑی تعداد میں شہری خصوصاً خواتین اور بچے ہلاک ہورہے ہیں بھارتی افواج نے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر حملوں اور فائرنگ کو معمول بنا لیا ہے ۔
گزشتہ روز ورکنگ باؤنڈری پر حملہ میں چھ شہری ہلاک اور 24 زخمی ہوئے ۔ یہ حملہ عالمی یوم امن کے موقع پر کیا گیا ۔
بھارت کی یہ کوشش ہے کہ ایک جنگی ماحول پیدا کیا جائے تاکہ دنیا کی توجہ شہریوں کے احتجاج ‘ جلسہ ‘ جلوس اور ہڑتالوں سے ہٹائی جائے ۔ کشمیر میں سیاسی صورت حال اپنے عروج پر ہے ۔
کشمیریوں کے پاکستان سے زبردست توقعات ہیں لہذا حکومت پاکستان یہ کوشش کرے، ان کے توقعات پر پورا اترے۔
اس لیے ضروری ہے کشمیر کا مسئلہ دوبارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایاجائے اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیاجائے کہ وہ اپنے قرار دادوں پر عمل کرائے ۔اقوام متحدہ اور خصوصاً سلامتی کونسل کے قرار داد شملہ معاہدہ سے زیادہ اہم ہیں ۔
شملہ معاہدہ دو طرفہ معاہدہ ہے جبکہ سلامتی کونسل میں پوری دنیا نے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیرمیں استصواب رائے کرایاجائے گا لہذا حکومت کو چائیے کہ اس کے لئے تیاری کرے اور بین الاقوامی رائے عامہ کوتیار کرے تاکہ مسئلہ کشمیر کو دوبارہ سلامتی کونسل میں اس جواز کے ساتھ پیش کیاجائے کہ بھارت حیلے بہانے سے کشمیر پر دو طرفہ بات چیت کے لئے ابھی بھی تیار نہیں ہے ۔
دوسری طرف لوگو ں کے حق آزادی کو سلب کررہا ہے اور اس کو ختم کرنے کیلئے فوجی قوت کا بے دریغ استعمال بھی کررہا ہے چونکہ پاکستان بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے اس لیے وہ مقبوضہ کشمیرمیں فوجی مداخلت نہیں کررہا اور نہ ہی اس کا ارادہ ہے ۔
اس لیے یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے ،بھارت کو مجبور کیاجائے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد پر تمام فوجی کارروائیاں بند کرے بلکہ استصواب رائے کرانے سے پہلے تمام مقبوضہ علاقوں سے بھارتی افواج کا انخلاء کیاجائے اور پورے کشمیر کو اقوام متحدہ کے ماتحت غیر فوجی اور محفوظ علاقہ قرار دیاجائے ۔
اس کے بعد فوری طورپر کشمیر میں استصواب کرایاجائے اور کشمیریوں سے یہ پوچھاجائے کہ وہ بھارت میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں ۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور یہ تاریخی اورہر اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے ۔ اگر حکومت پاکستان اقوام متحدہ سے یہ تسلیم کرائے تو پورے خطے میں امن قائم ہوگااور دونوں ممالک اربوں ڈالر جنگی تیاریوں پر خرچ نہیں کریں گے۔