سابق صدر پرویزمشرف نے پیپلزپارٹی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف غصہ اتارنے کے لئے جوابی الزامات لگائے کہ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کو آصف زرداری نے سازش کرکے قتل کروایا ۔
پرویزمشرف کو شاید غصہ اس بات پر آیا کہ پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے افراد نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کیوں کی ۔
ریاستی مرضی کے مطابق سابق آرمی چیف کو ان الزامات سے بری کرنا تھا لہذا سرکاری اور دوسرے وکلاء نے واقعات کو توڑ مروڑ کے پیش کیا اور پرویزمشرف کے خلاف ثبوتوں کو پس پشت ڈال دیا تاکہ وہ بے نظیر بھٹو مقدمہ قتل سے بری ہوجائیں ۔
اپیل میں پی پی پی کے وکیل اور پارٹی کے رہنماء لطیف کھوسہ نے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پرویزمشرف ہی بے نظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ ہیں ، انہی کے ایماء پر بڑے سیاسی لیڈر کا قتل ہوا ۔
ثبوت کے طورپر انہوں نے فون پر پرویز مشرف کی دھمکیوں کو پیش کیا جس میں ان کا یہ کہنا کہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کا تعلق پرویزمشرف کی ذات سے ہے، وہ چاہیں گے تو ان کو سیکورٹی ملے گی یعنی بے نظیر بھٹو ان کے احکامات کے تابع ہوں گی تبھی ان کو سیکورٹی ملے گی ورنہ نہیں ۔
پھر سیاسی معاملات میں پرویزمشرف کی حکومت کو بے نظیر بھٹو نے زبردست طریقے سے چیلنج کیا تھا ۔
ان کا سیاسی مخالف بے نظیر بھٹو تھے کیونکہ بے نظیر بھٹو پاکستان کو اس بحران سے نکالنا چاہتی تھیں جس میں پرویزمشرف نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو ملوث کیا تھا ۔ پرویزمشرف کے طالبان سے دوستانہ تعلقات تھے اور اس کے جنگجو رہنماء کا کنٹرول انہی کے پاس تھا ۔
وہ اتنا بڑا سازشی شخص تھا کہ اس دوران اس نے خود کش حملوں میں سینکڑوں افراد قتل کروائے ۔
کئی اہم ترین شخصیات پر خودکش حملے کرائے اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اتنے اہم لوگ مر گئے تو بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ان درجنوں قتل عام کے واقعات میں سے ایک ہے۔
آفتاب شیر پاؤ کے گھر کے اندر نماز کے دوران خوفناک خودکش حملہ اس کی زندہ مثال ہے یہ پیغام پرویزمشرف نے عام کروایا تھا کہ اس ملک میں ان کے علاوہ کسی کی بھی زندگی محفوظ نہیں ہے ۔
جو ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کرے گا مارا جائے گا۔ نواب بگٹی اور لال مسجد پر حملہ اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔بلکہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس آنے پر کراچی میں ان کی زندگی پر حملہ ایک اور ثبوت ہے جس میں 180معصو م پاکستانی شہید ہوئے۔
پرویز مشرف نے اپنے سابق سپہ سالار ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا بلکہ آج تک اٹھا رہا ہے۔ جب وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے واپس آئے تو ان کو اتنی سیکورٹی فراہم کی گئی کہ کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا تھا ۔
اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرنے ،ان کے خلاف انسانی جذبات کے اظہار پر پابندی تھی اور سیکورٹی پر مامور افراد عام لوگوں پر بے پناہ تشدد کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھائے گئے ۔
شاید ہمارے بعض حکمرانوں کو یہ بات پسند نہیں کہ ایک سابق سپہ سالار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے اس لیے ان میں تکبر اور غرور پیدا ہوا ۔ انہوں نے عدالتوں کے احکامات ماننے سے انکار کیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ قانون سے بالا تر ہیں ۔
باقی پاکستانی ان کے غلام اور ماتحت ہیں لہذا ان کے خلاف احتجاج کرنا جرم قرار دیا گیا ۔ ان حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوگیا ہے اورموصوف آج بھی اپنے آپ کو مسلح افواج کا سپہ سالار اور ملک کا مطلق العنان صدر تصور کرتے ہیں۔
ان کی باتوں اور بیانات میں وہ تکبراور غرور ہے جس کو لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں ۔
پاکستان کے حکمرانوں نے 2013ء کے انتخابات کے دوران ان کو وطن آنے سے منع کیا تھا مگر وہ متکبر انسان تھے وہ واپس آئے اور عوام الناس کے سامنے ان کو شرمندگی سے بچانے کے لئے زبردست سیکورٹی فراہم کی گئی لیکن وہ جب تک پاکستان میں رہے خوفزدہ رہے
دوسرے پاکستانی کو خودکش حملہ آور تصور کرتے رہے ۔ اب وہ دوبارہ ملک سے باہر رہ کر اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں لیکن ان میں یہ ہمت نہیں کہ واپس آئیں ۔