|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2017

حب: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(پجار)کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین کامریڈ عمران بلوچ اراکین مرکزی کمیٹی ھنیف بلوچ دین جان جان بلوچ حب زون کے صدر وفا بلوچ نائب صدر کا مران لاسی نے لسبیلہ پریس کلب حب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہحب سمیت لسبیلہ آج شدید تعلیمی مسائل سے دوچار تعلیمی ادارے تمام تربنیادی سہولیات سے محروم کھنڈرات میں تبدیل ہونے جارہے ہیں۔ 

محکمہ تعلیم لسبیلہ جو تمام مسائل سے چشم پوشی اختیار کرکے خواب خرگوش میں سویا ہواہے۔ حب شہر جس کی آبادی انتہائی حد تک بڑھ چکی ہے جہاں صرف ایک ہی گورنمنٹ ہائی اسکول ہے جس میں تقریباً کم وبیش 2500 طلباء زیرتعلیم ہیں لیکن ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ واحد ہائی اسکول آج مسائلستان کا گڑھ بناہواہے۔ 

طلباء کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ، کلاس رومز اوراساتذہ کی کمی، بلڈنگ کی خستہ حالی، پانی وبجلی کا مسئلہ، لیٹرین کا نہ ہونا و دیگر سہولیات کے فقدان یہ ایسے مسائل ہیں جو کہ اس اکلوتے اسکول کو تباہی کی جانب لے جاچکے ہیں۔ فنڈز میں خرد برد ہونے کی وجہ سے آج تک ایک کام بھی مکمل نہیں ہواہے۔ 

سکول کی لیٹرین کیلئے ایک NGOنے مبلغ30000روپے دیئے لیکن کام ادھوراچھوڑ دیاگیا۔ سکول کے پانچ نئے کمرے MPAفنڈز سے زیرتعلیم ہیں لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود آج تک کام مکمل نہیں ہوا۔ پرائمری اسکول حب جو کہ حب شہر اورDDEOآفس کے بیک سائیڈ پرواقع ہے جس کے زیادہ تر کلاس رومز کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ 

سکول میں نہ پینے کا پانی میسر ہے اورنہ لیٹرین کی سہولت، لیٹرین نہ ہونے کی وجہ سے اسکول میں گند پھیل چکاہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ڈی ڈی او صاحب کا آفس قریب ہونے کے باوجود موصوف اسکول میں دورہ کرنے کو گوارہ نہیں کرتے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ساکران ، گرلز مڈ ل اسکول ساکران، اکرم کالونی اسکول، گرلز ہائی اسکول حب سمیت اکثروبیشتر اسکولوں کی حالت زاربھی یہی ہے۔ 

خستہ حالی کی وجہ سے آئے روز اسکولوں میں مختلف حادثات سامنے آرہے ہیں۔ چند ہفتے قبل گرلز مڈل اسکول ساکران کے خستہ حال چھت کا وزنی پلسترگرنے کی وجہ سے طالبات زخمی ہوئیں اور اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونماہوچکے ہیں لیکن آج تک محکمہ تعلیم لسبیلہ و دیگر اعلیٰ حکام کے سوائے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نہیں آٹھائے ہیں محکمہ تعلیم لسبیلہ کے آفیسران کو تعلیمی نظام میں بہتری لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔

وہ تعلیمی ادارے پر توجہ دینے کے بجائے زیادہ ترNGOsکو ٹائم دے رہے ہیں کیونکہ وہاں سے انہیں اچھی خاصی رقم مل رہی ہے۔ مختلف NGOs کے مختلف پروجیکٹس تعلیم میں استعمال ہورہے ہیں۔ لیکن اسکولوں کی حالت زارمیں کوئی بہتری نہیں آئی۔ 

گورنمنٹ ہائی اسکول جو کہ سب سے بڑا ہائی اسکول ہے ان پروجیکٹ میں نظرانداز کردیاگیاہے۔ لسبیلہ میں محکمہ تعلیم ، گلوبل پارٹنرشپ فارایجوکیشن کے تحت تقریبا 9کروڑ کے کام مختلف اسکولوں میں جاری ہیں ۔ 

ہائی اسکول وایارو اوتھل جو کہ ایک دیہاتی اسکول ہے جہاں طلباء کی تعداد بھی کم ہے وہاں 39لاکھ روپے کا گرانٹ دیاگیاہے لیکن ہائی اسکول حب و پرائمری اسکول حب ان تمام فنڈز سے محروم ہے۔ 

شہر کے اسکولوں کو نظرانداز کرکے دیہاتی اسکولوں فنڈز دینے سے محکمہ تعلیم کی کرپشن ظاہر ہوتی ہے کیونکہ دیہاتی اسکولوں کو فنڈز اس لئے دیئے جارہے ہیں کہ وہاں کوئی اعلیٰ افسر دورہ نہیں کرتا اور شہر کے اسکولوں میں آئے روز لوگوں کا آنا جانا رہتاہے۔ 

اگریہاں فنڈز خرد برد ہوتی ہے تو سب کی نظرمیں آنے کی وجہ سے ایجوکیشن آفیسران کے کرپشن کا راز فاش ہوجائے گا ۔