امریکی سیکرٹری دفاع نے بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا۔ بھارت میں امریکی فوجی امداد اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے علاوہ افغانستان کا مسئلہ سرفہرست رہا اور دونوں ممالک نے افغانستان کی امداد کا وعدہ کیا ۔
البتہ بھارتی وزیر خارجہ نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ ان کا ملک افغانستان میں اپنی افواج نہیں بھیجے گا ، بھارت کا کوئی فوجی افغان سرزمین پر قدم نہیں رکھے گا اور نہ ہی افغانستان کی خانہ جنگی میں حصہ لے گا ۔
اس جواب کا صاف مطلب یہ لیاجائے کہ افغانستان کی جنگ ناٹو افواج ہی لڑیں گیں اور اس کی سربراہی امریکا کرے گا۔ اب تک امریکا کے 2500 فوجی افغانستان کی جنگ میں ہلاک اور تقریباً بیس ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوچکے ہیں ۔ امریکا ابھی تک افغانستان میں پوری آب و تاب اور فوجی تیاریوں کے ساتھ موجود ہے ۔
اس بار امریکی افواج پیدل طالب سپاہی کا پیچھا کرتی نظر آرہی ہیں ۔اور افغان افواج بھی میدان جنگ میں یہ جنگ لڑ رہی ہیں ، ان کو امریکی افواج اور فضائیہ کی حمایت حاصل ہے ۔ تاہم افغانستان کے دورے کے دوران امریکی سیکرٹری دفاع نے یہ وعدہ دہرایا کہ وہ افغان افواج کی تربیت کریں گے ان کو جدید ترین اسلحہ فراہم کریں گے تاکہ تین لاکھ کی افغان فوج ہی طالبان‘ داعش اور القاعدہ کو شکست دے اور افغانستان ایک مضبوط ملک بن جائے اور اپنی حفاظت خود کرے ۔
تاہم بھارت میں امریکی سیکرٹری خارجہ کا زور یہ تھا کہ پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف بھارت کے ساتھ مل کر کارروائی کرے گا ۔ دہشت گردی کے ٹھکانے جہاں بھی ہوں گے ان کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔ امریکی اور بھارتی وزیر دفاع کا اشارہ نام لیے بغیر پاکستان کی طرف تھا۔
لیکن پاکستان اس بات کی ہمیشہ تردید کرتا آیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، جتنے ٹھکانے تھے ان سب کو حالیہ فوجی کارروائی میں تباہ کیا گیا، اب کوئی تربیت گاہ موجود نہیں ہے نہ ہی ان کی پناہ گاہیں ہیں ۔ حالیہ کارروائی میں دہشت گرد فرار ہوکر افغانستان چلے گئے ہیں اور افغانستان سے کارروائیاں کررہے ہیں ۔
حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروہ پاکستان سے فرار ہوچکے ہیں اور انہوں نے اپنا مسکن افغانستان کو بنا یاہوا ہے ۔ پاکستان اس بات پر ہمیشہ تیار نظر آیا ہے کہ وہ امریکا اور افغانستان سے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے ۔
پاکستان امریکا سے اس معاملے میں تعاون کے لئے تیار ہے یہی پیغام تھا جو پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ دنوں دنیا کے ممالک خصوصاً امریکا کو دیا ۔ افغانستان سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخلے کو روکنے کے لئے پاکستان سرحد پر خار دار تار لگارہا ہے ۔
یہ عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے ، پاکستان سرحدی معاملات کا بہترانتظام کرنا چاہتا ہے تاکہ کوئی بھی شخص افغانستان سے پاکستان کے اندر غیر قانونی طریقے سے داخل نہ ہو ۔ پاکستان کی حکومت نے اس پر زبردست توجہ دی ہے اور مزید توجہ دے رہی ہے پاکستان یہ بھی توقع کررہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی آمد و رفت قانونی طورپر ہو ۔
اگلے چند دنوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ افغانستان کا دورہ کرنے والے ہیں جس کے دوران وہ افغان سیاسی اور فوجی رہنماؤں سے باہمی تعلقات پر بات چیت کریں گے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں نہ صرف کمی آئے بلکہ ایک دوسرے پر اعتبار بھی بڑھے۔
تاہم بھارت کا رویہ معاندانہ نظر آتا ہے، وہ دن بدن کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے ۔ آئے دن پاکستان کے سرحدی علاقوں پر گولہ باری اور فائرنگ کررہا ہے جس سے حالیہ دنوں میں کئی جانیں ضائع ہوگئی ہیں اور کئی افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
بھارت نے امریکی سیکرٹری دفاع کی موجودگی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید کشیدگی بڑھانے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ بھارت دوبارہ سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کی پیش بندی کے طوپرر پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کررہا ہے ۔