|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2017

میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی کشتی ڈوب گئی ہے اس میں سوار کم ازکم’ 60 افراد‘ ہلاک ہو گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی کشتی جمعرات کو تندو تیز سمندر میں الٹ گئی۔

اس سے پہلے اقوامِ متحدہ اور امدادی کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میانمار میں اقوامِ متحدہ کی قیادت نے روہنگیا کے حقوق کے معاملات کو حکومت کے سامنے اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان جوئل ملمین کا کہنا ہے کہ اب تک کم ازکم 23 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے اور لاپتہ 40 افراد کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں سرکاری فوج کی جانب سے آپریشن شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک پانچ لاکھ کے قریب روہنگیا اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، اور ان میں بہت سے اب بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہیں۔

خیال رہے کہ میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں.

ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں۔ حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ ميانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں۔آنگ سان سوچیملک کے شمالی رخائن صوبے میں جاری بحران پر اپنے پہلے قومی خطاب میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ رخائن میں زیادہ تر مسلم گاؤں موجود ہیں۔ ہر شخص نے راہ فرار اختیار نہیں کیا ہے۔ ہم بین الاقوامی برادری کو یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں

بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے

شمالی صوبے رخائن میں پولیس چوکیوں پر حملے کے بعد فوج نے حملہ آوروں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا تھا۔

میانمار کی حکومت روہنگیا کے خلاف گذشتہ ایک ماہ سے جاری آپریشن کے بارے میں کہتی ہے کہ وہ جنگجوؤں کے حملے کا جواب دے رہی ہے۔